اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے والی نو مسلم بہنوں کو شوہروں کے ساتھ دینے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا گیا تھا۔
عدالتی کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں بہنوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے بھی احکامات جاری کئے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے گھوٹکی کی ہندو مذہب چھوڑنے والی 2 نومسلم بہنوں کی تحفظ فراہمی کی درخواست پر سماعت کی۔ جب سماعت شروع ہوئی تو عدالتی حکم پر قائم کمیشن نےاپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
سیکرٹری داخلہ، عدالتی کمیشن کے ارکان، تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اور لڑکیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی ہدایت پر جبری مذہب تبدیلی کے الزام کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیاتھا۔
9 اپریل کو وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری اور قومی کمیشن حقوق خواتین کی چیئر پرسن خاورممتاز نے لڑکیوں اوران کے خاوندوں سے ملاقات کی۔
سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ بظاہر یہ معاملہ زبردستی مذہب تبدیلی کا نہیں لگتا۔ میڈیکل بورڈ کے مطابق آسیہ کی عمر 19 اور نادیہ کی عمر 18 سال ہے۔
سیکریٹری داخلہ نےبتایا کہ لڑکیوں نے زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا اور تسلیم کیا کہ مذہب تبدیلی میں لڑکیوں کی مدد ضرور کی گئی ہے۔
سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے بھی رپورٹ پیش کی جس کے لیے کمشنر اور ڈی آئی جی سکھر نے کمیشن کی معاونت کی۔
کمیشن کی رکن خاور ممتاز نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ یہ حساس معاملہ تھا ہم نے اس کی چھان بین کی، لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کیلئے اسلام قبول کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اقلیتوں کو شبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے حقوقِ محفوظ نہیں۔ کمیشن کے ارکان بڑی عزت کے حامل لوگ ہیں اور ہمیں ان پریقین ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ واضح ہوگیا کہ لڑکیاں بالغ ہیں اور زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا۔ ڈاکٹر رمیش کمار حکومتی پارٹی سے ہیں وہ سیاسی فورمز پر معاملہ اٹھائیں۔
دوران سماعت رکن اسمبلی رمیش کمارنے عدالت کا شکریہ ادا کیا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شکریہ ادا نہ کریں ہرشہری کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔
شرمندگی ہوتی ہے جب رکن اسمبلی مدد مانگتا ہے
رمیش کمار نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی پارلیمان میں میں بل پیش کیے لیکن انہیں نہیں لگتااس پر پیش رفت ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ شرمندگی ہوتی ہے جب کوئی رکن پارلیمنٹ عدالتوں سے آکر مدد مانگے، اکثریتی جماعت اب یہ کہے گی پارلیمنٹ بے بس ہے، عدالت احکامات دے؟
منظم گروپ کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے
عدالتی استفسار پر کمیشن کے رکن آئی اے رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ایک منظم گروپ گھوٹکی کے علاقے میں لوگوں کو تبدیلی مذہب کی ترغیب دیتا ہے۔ یہاں زبردستی مذہب تبدیلی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔
آئی اے رحمان نے استدعا کی کہ عدالت ایسے مراکز کو قانونی دائرے میں لانے کا حکم دے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ سندھ ان کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کہ ہمیں پارلیمنٹ پراعتماد ہے ان کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ خود ایسے معاملات پربحث کرائے۔ معاملے کی حسساسیت کو دیکھتے ہوئے انکوائری کرائی۔ چاہتے تھے لڑکیوں کے والدین کی تسلی ہوجائے یہ بات طے ہوچکی کہ زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا۔
عدالت نے نو مسلم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست منظور کرلی اور انہیں اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کی بھی اجازت دے دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ لڑکیوں اور ان کے شوہروں کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔
عدالت نےانکوائری کمیشن سے حتمی رپورٹ اور سفارشات طلب کرتے ہوئے سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی ہے۔