مشرق وسطیٰ میں عرب اور اسرائیل تعلقات میں قربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ان کے درمیان باہمی تعاون اور تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اسرائیل، امریکہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور مصر کے وزرائے خارجہ نے پیر کو جنوبی اسرائیل میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔
اجلاس کے بعد امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ کچھ ہی برس پہلے تک اس طرح کے اجتماع کا تصور کرنا بھی محال تھا۔
نیگیو میں یہ اعلیٰ سطحی اجلاس اسرائیل کے 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بعدمنعقد ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لپڈنے کہا کہ یہ مذاکرات ایک فورم بن گئے ہیں، جو اب ہوتے رہیں گے۔
بلنکن نے 2020ءکے معاہدوں کے بعد تعلیم اور طب پر تعاون سمیت سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے طریقہ کار سے متعلق بات کی۔انھوں نے کہا کہ امریکہ ایک ایسے عمل کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور کرتا رہےگا جو اس خطے اور اس سے باہر کی صورتحال کو بدل رہا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی صدر کا دورۂ ترکی: ’ایردوان کی خارجہ پالیسی میں اعتدال آرہا ہے‘وزرائے خارجہ نے اپنے تاریخی اجلاس میں کئی مسائل پر بات کی جن میں ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے جاری کوششیں اور روسی حملے کی مزاحمت میں یوکرین کی مزید مدد کے لیے امریکی دباؤ شامل ہے۔
لپڈ نے کہا کہ اس اجلاس میں شامل افراد ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ نیا ڈھانچہ اور مشترکہ صلاحیتیں جو ہم قائم کررہے ہیں ہمارے مشترکہ دشمنوں کو جن میں ایران اور اس کے پراکسی شامل ہیں خوفزدہ کرے گا اور انھیں کسی مہم جوئی سے باز رکھے گا۔
بحرین کے وزیر خارجہ عبدالطیف بن راشد الزیانی نے کہا کہ اس میں شامل ممالک کو باہمی احترام پر عمل کرنے، اپنی مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کو مزید بہتربنانےکی ضرورت ہے اور پورے خطے پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ مل کر کام کرنے سے ہم کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان نے اسرائیل کے ساتھ مصر کے 1989ء کے امن معاہدے کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ ہم نے اس معاہدے اور 2020ء کے معاہدے کے درمیان کی 40سالہ مدت ضائع کی۔انھوں نے کہا کہ اب بیانیہ کو تبدیل کرنے اور ایک نیا مستقبل بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کا وقت آگیاہے۔
(اس رپورٹ میں شامل کچھ معلومات دی ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)