|
ویب ڈیسک۔۔۔اسرائیلی فوج نے پیر کے روز کہا ہےکہ اس نے 9 فوجیوں کو ایک حراستی مرکز میں ایک قیدی کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات کے لیے حراست میں لیا ہے۔ اس حراستی مرکز میں جنگ کے دوران غزہ سے گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کو رکھا جاتا ہے۔
فوجیوں کی حراست کا سننے کے بعد کئی اسرائیلی ان سے حمایت کے اظہار کے لیے حراستی مرکز پر چڑھ دوڑے اور کئی ایک اندر گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔ان واقعات کی لائیو فوٹیج اسرائیل کے ٹی وی نیٹ ورکس پر دکھائی گئیں۔
ایک فوجی ترجمان نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بدسلوکی کی تحقیقات کے سلسلے میں 9 فوجیوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے۔
اسرائیل فورسز اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں، حماس کے زیر قبضہ علاقے کے عہدے داروں اور سابقہ قیدیوں سے اے ایف پی نے انٹڑویوز کیے ہیں، ان سب نے حراست کے دروان مبینہ بدسلوکیوں کی بات کی ہے۔
جب کہ اسرائیلی فوج یہ کہتی ہے کہ اس کے حراستی مقامات کے حالات بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں۔
فوج نے اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے ایک حراستی مرکز ’سدیہ تیمان‘ میں قید میں رکھے گئے ایک شخص کے ساتھ قابل ذکر مشتبہ بدسلوکی کے بعد تحقیقات شروع کر دیں ہیں۔ تاہم فوج کے بیان میں اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔
SEE ALSO: اسرائیلی شہر تل ابیب میں غیر معمولی مشترکہ فلسطینی۔یہودی امن مظاہرہتاہم اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایک فلسطینی قیدی کو مذکورہ حراستی مرکز میں کچھ اسرائیلی فوجیوں نے مبینہ طور پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا تھا۔
میڈیا نے کہ بھی بتایا ہے کہ ان تحقیقات کے سلسلے میں 8 فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی ہیلوی نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
ہیلوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک فوجی تنصیب میں گھسنا اور وہاں کے نظم و نسق میں خلل ڈالنا انتہائی تشویش ناک طرز عمل ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
SEE ALSO: فلسطینیوں کی مدد؛ ترک صدر ایردوان کی اسرائیل میں داخل ہونے کی دھمکیان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور اس طرح کے اقدامات ریاست کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں اس واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں اور ہم فوجی تنصیب کا نظم و نسق بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
سدیہ تمان کا حراستی مرکز، جنوبی اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں گرفتار کیے جانے والے فلسطینیوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، حماس کے حملے کے نتیجے میں 1179 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
SEE ALSO: یرغمالوں کی رہائی کا معاہدہ جلد ہو سکتا ہے: نیتن یاہوعسکریت پسندوں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا جن میں سے 111 کو ابھی تک غزہ میں رکھا جا رہا ہے، جن میں وہ 39 لوگ بھی شامل ہیں جن کے متعلق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں غزہ میں 39363 لوگ مارے جا چکے ہیں، تاہم غزہ کی وزارت صحت اس بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کرتی کہ ہلاک ہونے والوں میں عام شہری اور عسکریت پسند کتنے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس مہینے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی غیر معینہ مدت کی حراستیں ختم کرے۔ جس کے بارے میں اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان جیلوں میں بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسے 27 فلسطینیوں کا ریکارڈ موجود ہے، جن میں پانچ خواتین اور ایک 14 سالہ لڑکا شامل ہے۔ انہیں ساڑھے چار ماہ تک حراست میں رکھا گیا جس دوران انہیں اپنے خاندان سے رابطہ بھی نہیں کرنے دیا گیا۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)