رسائی کے لنکس

گوادر میں 'جبری گمشدگیوں' کے خلاف دھرنا؛ فوج کا مظاہرین کے حملے میں ایک اہلکار کی ہلاکت کا بیان


 جبری گمشدگیوں کے خلاف گوادر میں ہونے والے دھرنے میں خواتین بھی شریک ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف گوادر میں ہونے والے دھرنے میں خواتین بھی شریک ہیں۔
  • اتوار کو کشیدہ صورتِ حال کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  • پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ دھرنے کی آڑ میں سیکیورٹی میں فورسز پر حملہ کیا گیا ہے جس میں ایک اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے ہیں۔
  • ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ بی وائے سی کے دھرنے پر دو بار کریک ڈاؤں ہوا ہے اور سیکیورٹی فورسز نے پُرامن شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
  • وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بی وائی سی کے جلسے کو گوادر میں سی پیک کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے اور ساتھ یہ ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے۔

کوئٹہ__گوادر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کا جلسہ اتوار کے پُرتشدد واقعات کے بعد دھرنے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ جلسے کی آڑ میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں ایک اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے ہیں۔

بی وائے سی کا دھرنا جاری ہے اور دوسرے روز بھی ساحلی شہر گوادر میں صورتِ حال کشیدہ ہے۔

پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے پیر کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ راج مچی کی آڑ میں گوادر ضلع میں تعینات سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک اور دیگر 16 اہل کار زخمی ہو گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم نے بلا اشتعال فورسز کو نشانہ بنایا ہے۔ جتھوں کی جانب سے پر تشدد کارروائیاں قابلِ قبول نہیں اور ذمے داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ شہری کسی پراپیگنڈے کے شکار ہونے کے بجائے پُرامن رہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔

ادھر بی وائی سی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے پیر کو جاری کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ تین روز کے دوران ان کے ایک ہزار کارکنان کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چار دن سے گوادر میں انٹرنیٹ بند ہے جب کہ ایف سی، پولیس اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہل کار عام لوگوں پر تشدد کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کا کہنا تھا کہ دھرنے پر دو بار کریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ ایف سی اور پولیس نے مذاکرات کے بجائے پُرامن دھرنے کے شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس سے قبل بی وائے سی نے ’’بلوچ راجء مچی" (بلوچ قومی اجتماع) کے عنوان سے اتوار کو گوادر میں جلسے پر کریک ڈاؤن اور شرکا پر فائرنگ کے نتیجے میں اپنے دو کارکنوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی۔

منتظمین کے مطابق جلسے کے شرکا کے خلاف حکومتی کارروائیوں اور بلوچستان کی مختلف قومی شاہراہوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے کئی قافلے گوادر جلسے میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔

گوادر میں منگل کو بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل رہی ہے جب کہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دھرنے کے شرکا پر دوسرے روز بھی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود گوادر میں لوگوں کا جم غفیر ہے اور بلوچ عوام جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں اور دیگر مسائل پر اس ریفرنڈم کا حصہ بنے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے گوادر میں سیکیورٹی اہلکاروں کے زخمی اور ایک ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دھرنا پر امن تھا تو یہ کارروائی کس نے کی تھی۔

بی وائے سی نے جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
بی وائے سی نے جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا پاکستان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا پر بلوچستان سے متعلق پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے کہا تھا کہ کہ تربت میں جلسہ کرلیں ۔اگست میں گوادر میں چینی وفد آنے والا ہے اور وہاں سی پیک کا دوسرا فیز شروع ہونے جا رہا ہے۔ لیکن یہ جلسہ تربت نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کا مقصد گوادر اور سی پیک کی ترقی کو روکنا ہے۔

بی وائی سی کے جلسے پر تنقید کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے ایک بار پھر اس کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ میں اپوزیشن کو مذاکرات کا اختیار دینے کے لیے تیار ہوں۔

اس سے قبل سرکاری سطح پر جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ساحلی شہر گوادر میں کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو امن و امان کا جائزہ لینے کے لیے گوادر پہنچ گئے ہیں۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیر داخلہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے ان کے مطالبات کا جائزہ لیں گے۔

کریک ڈاؤن کی اطلاعات

ادھرکوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ رات گئے پولیس کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کے قریب جاری دھرنے پر کریک ڈوان کیا گیا ہے اور 14 کے قریب افراد کو دفعہ 144 کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے۔

گوادر کے ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گوادر میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔

صحافی نے بتایا ہے کہ فورسز کی جانب سے دھرنا مظاہرین پر آج بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جب کہ متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کے مطابق گزشتہ شب پولیس نے گوادر میں نیشنل پارٹی سینٹرل کمیٹی کے رکن اشرف حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر نہ صرف انہیں گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے گھر میں موجود دھرنے کے شرکا کی تقریباً 12 گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے اور ان کے شیشے توڑے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی گوادر میں کشیدگی اور سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کی ویڈیوز گردش میں ہیں۔ لیکن ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ادھر ہفتے کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں فورسز کی جانب سے یکجہتی کمیٹی کے قافلے پر فائرنگ کے خلاف مستونگ اور کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دیا گیا۔

بی وائے سی کے مطالبات

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری کردہ بیان کے مطابق بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) پدی زِر گوادر میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بلوچ راجی مچی صرف 28 جولائی کے دن ایک جلسے کی صورت میں ہوناتھا لیکن ان کے بقول، ریاستی جبر کے سبب ہم اسے پدی زِر گوادر میں ایک غیر معینہ مدت کے لیے دھرنے میں تبدیل کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس وقت گوادر میں کرفیو کا سما ہے مگر اس کے باوجود ہزاروں لوگ بلوچ راجی مچی میں موجود ہیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے جو وہاں دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔ ایک جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے راستے کھول کر انہیں گوادر آنے دیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے ہمارے تمام گرفتار افراد کو 48 گھنٹے کے اندر رہا کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں دھرنا غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جلسہ، حکومت کو گوادر کے انتخاب پر اعتراض
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:08 0:00

مستونگ اور گوادر واقعات کے خلاف بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی کال پر وکلاء نے بھی پیر کو صوبے بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جب کہ باررومز پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔

ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مستونگ اور گوادر میں فورسز کی جانب سے مبینہ فائرنگ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ "ایکس" پر اپنے بیان میں عالمی تنظیم نے پاکستان میں حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ گوادر میں انٹرنیٹ فوری طور پر بحال کیا جائے۔ انسانی حقوق کے ملکی اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے تاکہ لوگوں کے پرامن احتجاج کے حق میں سہولت فراہم کی جا سکے۔

یاد رہے کہ بلوچستان بھر سے 28 جولائی کو بڑی تعداد میں لوگ گوادر میں منعقد ہونے والے سیاسی اجتماع میں شرکت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم حکومت کی جانب سے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے لوگ اس جلسے میں شرکت نہیں کرسکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG