ایک اسرائیلی عدالت نے بدھ کے روز ان سات یہودی مردوں کو سزا سنائی ہے جن پر 2015 میں منعقد ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کا الزام ہے جس کے دوران ایک فلسطینی کم سن بچے اور اس کے والدین کے آتش زنی میں مرنے پر خوشی منائی گئی تھی۔
یروشلم کے مجسٹریٹ کی عدالت نے ان ساتوں مردوں کو کئی الزامات میں مجرم قرار دیا ہے۔ ان میں دوابشے خاندان کے قتل پر خوشی منانا شامل ہے۔ یہ خاندان جولائی 2015 میں انتہاپسند آبادکاروں کی جانب سے آتش زنی کے حملے میں ہلاک ہوگیا تھا۔
ایک اور شخص جو اس شادی کی تقریب میں گلوکاری کر رہا تھا، اسے مجرم نہیں پایا گیا۔ عبرانی زبان کے روزنامہ ہاریٹز کے مطابق ان افراد کی سزا کے تعین کے لیے سماعت نومبر میں کی جائے گی۔
SEE ALSO: اسرائیل فلسطین تنازع؛ اقوامِ متحدہ کا حالیہ پر تشدد واقعات کی تحقیقات پر زورمقبوضہ مغربی کنارے کے ایک گاؤں ڈوما میں ہونے والے اس حملے کے دوران اٹھارہ مہینے کا علی اور اس کے والدین ریحام اور سعد ہلاک ہوگئے تھے جس کی اسرائیل کے تمام سیاسی طبقات کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔
اس واقعے کے چند ماہ بعد اسرائیل کے ایک ٹیلی وژن پر ایک ویڈیو نشر کی گئی جس میں ایک شادی کے دوران مہمان رائفلوں کے ساتھ ناچ رہے ہیں اور موسیقی کے ساتھ اتنقامی شاعری گائی جا رہی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ افراد علی دوابشے کی تصویروں پر خنجر پیوست کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت انصاف کے مطابق عدالت کے سامنے یہ افراد تشدد اور دہشت پھیلانے کے الزامات میں مجرم پائے گئے ہیں۔ ایک شخص پر نسل پرستی پھیلانے، دہشت گرد گروہ کی حمایت کرنے، غیر قانونی ہتھیار اپنی ملکیت میں رکھنے کا مجرم پایا گیا۔ ایک اور شخص پر غیر قانونی ہتھیار کی ملکیت سے متعلق جرم ثابت ہوا۔