|
اسرائیل نے خان یونس سمیت جنوبی غزہ کے محفوظ زون قرار دیے گئے سمیت متعدد علاقوں سے ایک بار پھر فلسطینیوں کو انخلا کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب حماس نے امریکہ اور دوسرے ثالثوں پر زور دیا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کی تجاویز کی روشنی میں جس منصوبے پر گزشتہ ماہ اتفاق ہوا تھا، اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذاکرات کے نئے دور یا نئی تجاویز فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے اور جارحیت کے لیے آڑ فراہم کریں گے۔
امریکہ کے علاوہ مصر اور قطر بین الاقوامی ثالثوں کے طور پر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دس ماہ سے جاری جنگ میں اسرائیل نے ایک بار پھر جنوبی غزہ میں فلسطینیوں کو حماس کے خلاف اپنی کارروائیوں میں متعدد علاقوں سے انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔
ایک روز قبل اسرائیل نے پناہ گاہ کے طور استعمال ہونے والے ایک اسکول پر فضائی حملہ کیا تھا جس میں طبی حکام کے مطابق کم از کم 90 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ میں دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کو ایک مقام سے دوسرے کی جانب کوچ کرنے کا کہا ہے۔
غزہ کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے جن کی اکثریت 40 کلومیٹر طویل اس اسرائیل کی ناکہ بندی کی شکار پٹی میں کئی بار بے گھر ہو چکی ہے۔
جس علاقے سے انخلا کے تازہ ترین احکامات جاری کیے گئے ہیں ان میں غزہ کے دوسرے بڑے شہر خان یونس کے کئی حصے بھی شامل ہیں۔ ان میں سیف زون کا حصہ بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: غزہ: اسرائیل کا پناہ گزینوں کے اسکول پر حملہ، 90 سے زیادہ افراد ہلاک
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ سیف زون قرار دیے گئے علاقے سے راکٹ داغے گئے ہیں۔
اسرائیل کا یہ الزام رہا ہے کہ حماس اور دیگر عسکریت پسند شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں اور رہائشی علاقوں سے حملے کرتے ہیں۔
اسرائیلی فورسز کے انخلا کے نئے احکامات کے ساتھ ہی انسانی ہمدردی کے تحت محفوظ قرار دیا گیا علاقہ مستقل طور پر سکڑ رہا ہے۔
لاکھوں لوگ خیموں پر مشتمل انتہائی گنجان کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
بے گھر لوگوں نے اسکولوں میں پناہ لینے کی بھی کوشش کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق ان میں سے سیکڑوں لوگ براہِ راست نشانہ بنے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔
غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس شہر میں رواں برس کے شروع میں ایک فضائی اور زمینی کارروائی کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
اسرائیل نے فضا سے انخلا کے حکم نامے والے پمفلٹس پھینکے جس کے ساتھ ہی سیکڑوں ہزاروں خاندان اپنا بچا کچھا سامان تھامے محفوظ مقامات کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو امدادی تنظیموں کے مطابق تباہ کن انسانی بحران کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین نے غزہ میں قحط کی صورتِ حال سے خبردار کر دیا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل:خان یونس پر تیسری کارروائی، جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ی کا اظہار
غزہ میں حماس کی زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اسے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے علاوہ حماس کے جنگجو ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے جن میں سےتقریباً ایک تہائی ہلاک ہو چکے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق 110 مغوی زندہ باقی ہیں۔ ان کی رہائی بھی جنگ بندی کے مذاکرات کا حصہ ہے۔
جنگ کے دوران خطے میں کئی محاذوں پر کشیدگی بڑھ گئی جن میں اسرائیل اور ایران کے درمیان تناؤ بھی شامل ہے۔
ادھر لبنان میں فعال ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ نے کہا ہے کہ اتوار کے روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اس کے دو جنگجو مارے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ تقریباً روزانہ ہی سرحدی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
پچھلے ماہ بیروت کے جنوب میں مضافاتی علاقے میں ایک حملے کے نتیجے میں حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شکر ہلاک ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کچھ گھنٹوں کے وقفے کے بعد تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کا قتل ہوا تھا۔
ایران نے اس قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا اور اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ پھیلنے کے خدشات کے پیشِ نظر امریکہ نے خطے میں اپنا بحری بیڑا اور ایٹمی آب دوز بھیج دی ہے۔
امریکہ نے ایران کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے سے باز رہے۔
اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات ’اے پی‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔