بدھ کو علی الصباح کیے جانے والے اسرائیلی حملے کے بارے میں فریقین کے متضاد موقف سامنے آئے ہیں۔
واشنگٹن —
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ایک اہم اتحادی ملک روس نے شام کی ایک فوجی تنصیب پر اسرائیلی طیاروں کی مبینہ بمباری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اگر اس واقعے کی تصدیق ہوگئی تو یہ ایک خود مختار ملک کو "بلا وجہ حملوں" کا نشانہ بنانے کی کاروائی گردانی جائے گی جو اقوامِ متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بدھ کو علی الصباح کیے جانے والے اسرائیلی حملے کے بارے میں فریقین کے متضاد موقف سامنے آئے ہیں۔ شامی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے نزدیک ایک فوجی تحقیقی مرکز پر بم برسائے جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے فوجی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملہ شام اور لبنان کی سرحد کے نزدیک ایک قافلے پر کیا گیا تھا جو مبینہ طور پر لبنان کی اسرائیل مخالف عسکری تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے ہتھیار لے جارہا تھا۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں 'حزب اللہ' نے بھی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شام کے ساتھ "بھرپور یکجہتی" کا اظہار کیا ہے۔
شام میں غیر ملکی صحافیوں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں اور خانہ جنگی کی صورتِ حال کے باعث یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا فریقین کسی ایک ہی حملے کے متعلق متضاد موقف اپنائے ہوئے ہیں یا وہاں دو مختلف مقامات پر حملے کیے گئے تھے۔
اسرائیل ماضی میں بھی اس طرح کی "پیشگی فوجی کاروائیوں" پر کسی تبصرے سے گریز کرتا آیا ہے اور بدھ کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی جانب سے رابطہ کرنے پر اسرائیلی حکام نے حملے کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اگر اس واقعے کی تصدیق ہوگئی تو یہ ایک خود مختار ملک کو "بلا وجہ حملوں" کا نشانہ بنانے کی کاروائی گردانی جائے گی جو اقوامِ متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بدھ کو علی الصباح کیے جانے والے اسرائیلی حملے کے بارے میں فریقین کے متضاد موقف سامنے آئے ہیں۔ شامی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے نزدیک ایک فوجی تحقیقی مرکز پر بم برسائے جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے فوجی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملہ شام اور لبنان کی سرحد کے نزدیک ایک قافلے پر کیا گیا تھا جو مبینہ طور پر لبنان کی اسرائیل مخالف عسکری تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے ہتھیار لے جارہا تھا۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں 'حزب اللہ' نے بھی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شام کے ساتھ "بھرپور یکجہتی" کا اظہار کیا ہے۔
شام میں غیر ملکی صحافیوں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں اور خانہ جنگی کی صورتِ حال کے باعث یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا فریقین کسی ایک ہی حملے کے متعلق متضاد موقف اپنائے ہوئے ہیں یا وہاں دو مختلف مقامات پر حملے کیے گئے تھے۔
اسرائیل ماضی میں بھی اس طرح کی "پیشگی فوجی کاروائیوں" پر کسی تبصرے سے گریز کرتا آیا ہے اور بدھ کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی جانب سے رابطہ کرنے پر اسرائیلی حکام نے حملے کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا۔