|
ویب ڈیسک — اسرائیل کی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی مردوں کو فوج میں شامل کرنا شروع کیا جائے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یہ ایک تاریخی حکم ہے جس میں ایک ایسے نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی مرد لازمی فوجی خدمات میں بھرتی ہونے سے بچ جاتے تھے۔
رپورٹس کے مطابق لگ بھگ 13 لاکھ الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی اسرائیل کی آبادی کا لگ بھگ 13 فی صد ہیں اور یہ فوج میں اندراج کی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ دینی مدارس میں کل وقتی تعلیم حاصل کرنا ہی ان کا سب سے اہم فریضہ ہے۔
فوج میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو اندراج کی چھوٹ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت دی گئی تھی جب بہت کم تعداد میں موجود اسکالرز کو فوج میں اندراج سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔
تاہم سیاسی طور پر طاقت ور مذہبی جماعتوں کے زور سے یہ تعداد کئی دہائیوں کے درمیان بڑھی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سال 2017 میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ مذکورہ چھوٹ غیر قانونی تھی۔
تاہم بار بار کی توسیع اور حکومتی تاخیری حربوں نے متبادل قانون کو منظور ہونے نہیں دیا۔
الٹرا آرتھو ڈوکس یہودیوں کی دو جماعتیں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کا حصہ ہیں۔ تاہم لازمی فوجی خدمات سے وسیع استثنیٰ نے ملک میں ایک گہری تقسیم کو دوبارہ اجاگر کیا جس کی وجہ سے عوام مشتعل تھے۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ میں اسرائیل کی فوج حماس کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
حماس کے سات اکتوبر 2023 کو کیے جانے والے حملوں کے بعد غزہ میں جاری جنگ میں اب تک 600 سے زائد فوجی مارے جا چکے ہیں جب کہ بہت سے ریزرو فوجی اپنی ڈیوٹی کا دوسرا دور شروع کر رہے ہیں۔
غزہ جنگ جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اچانک اور بڑے حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تقربیاً ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
جب کہ غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 37 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کو اسرائیل کی 120 رکنی پارلیمان میں 64 نشستوں کی معمولی اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے اکثر انہیں چھوٹی چھوٹی الٹرا آرتھو ڈوکس جماعتوں کے مطالبات تسلیم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
SEE ALSO: حزب اللہ اسرائیل پر حملوں میں کمی لائے؛ امریکہ اور یورپی ممالک کی تنبیہاگر یہ جماعتیں حکومت کا حصہ نہیں رہتیں تو رواں برس اسرائیل میں نئے انتخابات کروانے پڑیں گے۔
غزہ میں جاری جنگ کو اب چند دن میں نو ماہ مکمل ہو جائیں گے جس کی وجہ سے اس وقت نیتن یاہو کی مقبولیت انتہائی کم بتائی جا رہی ہے۔
نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیر برائے ہاؤسنگ یتزک گولڈ کنوف الٹرا آرتھو ڈوکس جماعتوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو انتہائی بدقسمتی اور مایوس کن قرار دیا۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی جماعت حکومت چھوڑے گی یا نہیں۔
دوسری طرف ایک اور الٹرا آرتھو ڈوکس جماعت شاس کے چیئرمین اریے دری نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی تعلیم تمام دشمنوں کے خلاف ان کا ہتھیار ہے۔
عدالت نے رواں سال ان دینی تعلیمی اداروں کے لیے ریاستی سبسڈی کو عارضی طور پر منجمد کر دیا تھا جہاں الٹرا آرتھوڈوکس مرد زیرِ تعلیم تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ساتھ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ اس سبسڈی کو مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر اور آئینی ماہر بارک مدینا کا کہنا ہے کہ متعدد دینی تعلیمی اداروں کا انحصار حکومتی فنڈنگ پر ہے۔
ان کے مطابق حکومت اس بحران سے بچ نہیں پائے گی۔
اسرائیل کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے جس میں فوجی سروس زیادہ تر یہودی مردوں اور عورتوں کے لیے لازم ہے ۔ مرد تین برس جب کہ خواتین دو سال فعال ڈیوٹی کے علاوہ 40 سال کی عمر تک ریزرو ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔