|
اسرائیلی فوجیوں نے جمعے کے روز مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والی ایک امریکی خاتون کو ہلاک کر دیا، یہ بات ایسو سی ایٹڈ پریس کو دو مظاہرین نے بتائی جنہوں نے فائرنگ کا واقعہ دیکھا تھا ۔
امریکی حکومت نے سیاٹل کی 26 سالہ آیسنور ایزگی ایگی کی موت کی تصدیق کی ہے جو واشنگٹن یونیورسٹی سے حال ہی میں گریجویٹ ہوئی تھیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گولی ماری تھی۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایک امریکی شہری کی ہلاکت سے "بہت پریشان" ہے اور اسرائیل سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ایگی ایک ترک شہری بھی تھیں، ترک وزارت خارجہ کے ترجمان اونکو کیسیلی نے کہا کہ ملک"اس بات کو یقینی بنانے کےلیے ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ہماری شہری کو قتل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔"
اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے کہ فوجیوں نے احتجاج کے علاقے میں"پرتشدد سرگرمیوں پر ابھارنے والے ایک شخص پر " فائرنگ کرتے ہوئے ایک غیر ملکی شہری کو ہلاک کر دیا۔
ایگی یہودی بستیوں کی توسیع کے خلاف ہونے والے اس ہفتہ وار مظاہرے میں شرکت کر رہی تھیں جوماضی میں پرتشدد شکل اختیار کر چکے تھے۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیر دفاع کا مغربی کنارے کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے 'مکمل طاقت' کےاستعمال کا مطالبہترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایک ماہ قبل، اسرائیلی فورسز نے ایک امریکی شہری اماڈو سیسن کی ٹانگ پر اس وقت گولی مار دی، جب اس نے آنسو گیس اور فائرنگ سے بچ کر بھاگنے کی کوشش کی۔
ایک اسرائیلی شہری جوناتھن پولک نے، جو جمعہ کے احتجاج میں حصہ لے رہے تھے بتایا کہ فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب درجنوں فلسطینی اور بین الاقوامی کارکن شمالی مغربی کنارے کے قصبے بیتا کے باہر اسرائیلی بستی ایویاتر کے سامنے ایک پہاڑی علاقے میں اجتماعی دعا کر رہے تھے۔
پولک نے کہا کہ فوجیوں نے دعائیہ اجتماع کو گھیر لیا، اور جلد ہی جھڑپیں شروع ہو گئیں، فلسطینیوں نے پتھراؤ کیا اور فوجیوں نے آنسو گیس پھینکی اور فائرنگ کی ۔
انہوں نے کہا کہ میرے اور ایگی سمیت مظاہرین اور کارکن پہاڑی سے پیچھے ہٹ گئے اور جھڑپیں ختم ہو گئیں۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک قریبی گھر کی چھت پر کھڑے دو فوجیوں نے گروپ کی سمت ایک بندوق سےنشانہ بنایا اور ان پر گولی چلا دی۔
پولک نے مزید بتایا کہ جب بندوق سے گولیاں چلیں تو انہوں نے نالیوں سے شعلے نکلتے دیکھے۔ اورجب گولیاں چلائی گئیں تو ایگی ان کے پیچھے تقریباً 10 یا 15 میٹر کے فاصلے پر تھیں۔
ولک نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نےایگی کو زیتون کے ایک درخت کے پاس زمین پر پڑے دیکھا، انکا خون بہتا رہا یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہو گئی۔
مظاہرے میں فلسطینی انٹر نیشنل سولیڈیریٹی یا آئی ایس ایم کی ایک اور سر گرم کارکن مریم ڈیگ نے بھی کہاکہ انہوں نے ایک اسرائیلی فوجی کو چھت پر دیکھا تھا۔ مریم نے کہا کہ پھر انہوں نے دو گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ دھات کی کوئی چیز مظاہرے میں شریک ایک فلسطینی کی ٹانگ پر لگی اور دوسری ایگی کو لگی، جو پیچھے ہٹ کر ایک زیتون کے باغ میں چلی گئی تھیں۔
مریم نے بتایا کہ وہ گری ہوئی ایگی کی طرف دوڑیں جن کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ’’ گولیاں کہیں اور سے نہیں فوج کی سمت سے آ رہی تھیں۔‘‘
دو ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہےکہ ایگی کو سر میں گولی لگی تھی — ایک ڈاکٹر وارڈ بسالت، جنہوں نے جائے وقوع پر ابتدائی طبی امداد دی تھی ، اور دوسرے ڈاکٹر فواد نافع، جو قریبی شہر نابلس کے رفیدیہ ہسپتال کے ڈائریکٹر تھے، جہاں ایگی کو لے جایا گیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کا تعین کرنے پر " بھر پور توجہ مرکوز" کر رہا ہے کہ کیا ہوا تھا اور "ہم اس سے ضروری نتائج اخذ کریں گے۔"
ایکس پر شیئر کیے گئے ایک تحریری بیان میں، ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سےکئے گئے اس قتل کی مذمت کرتی ہے۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے ایکس پر لکھا کہ اس قتل نے "قابض فورسز کی جانب سے روزانہ کیے جانے والے جرائم کے سلسلے میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا ہے۔"
بین الاقوامی برادری مغربی کنارے میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو بڑے پیمانے پر انٹر نیشنل قانون کی خلاف ورزی سمجھتی ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد ا ے پی سے لیا گیا ہے۔