جاپان میں پولیس نے ہفتے کو تصدیق کی ہے کہ زلزلے اور اُس کے بعد آنے والے سونامی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 7300 ہو گئی ہے جب کہ تقریباً گیارہ ہزار افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
امدادی کارکنوں نے ابھی تک تمام متاثرہ علاقوں میں لاپتہ افراد کی تلاش کا کام مکمل نہیں کیا ہے اور اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد جن سے ابھی تک رابطہ نہیں ہوسکا ہے، وہ شاید زندہ نہ ہوں۔
اعلیٰ جاپانی حکام نے ہفتے کو بتایا ہے کہ فوکوشمیا کے متاثرہ جوہری توانائی کے پلانٹ کے قریب کھیتوں میں کاشت پالک اور اس علاقے میں دودھ میں تابکاری کے اثرات پائے گئے ہیں۔
کابینہ کے چیف سیکرٹری یوکیو ایڈانو (Yukio Edano ) نے بتایا کہ اگرچہ متاثرہ خوراک میں تابکاری کے اثرات حکومت طرف سے متعین کردہ تاربکاری کی حفاظتی سطح سے بلند ہے ۔ لیکن اب تک خوراک کے جتنے نمونوں کا ٹیسٹ کیا گیا ہے اُس سے صحت کو فوری خطرات لاحق نہیں ہیں۔
دریں اثناء جاپان میں انجینئر ہفتے کے روز بھی متاثرہ جوہری توانائی کے پلانٹ کی بجلی بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
جاپانی میڈیا کے مطابق ٹرکوں اور دوسرے طریقوں سے پانی پہنچا کر جوہری ری ایکٹرز کو ٹھنڈ ا رکھنے کا کام عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے تاکہ بجلی کی بحالی کے لیے کام کرنے والے افراد اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ عہدیداروں کا کہنا ہے متاثرہ ری ایکٹرز کو بجلی اتوار تک بحال ہو سکے گی۔
شمال مشرقی جاپان میں زلزلے اور سونامی سے متاثرہ جوہری تنصیب کے دو ری ایکٹرز اور استعمال شدہ فیول راڈز اس وقت سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں کیوں کہ بجلی کی معطلی کے بعد ری ایکٹرز کو ٹھنڈ ک پہنچانے کا نظام بند ہو گیا تھا اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے بعد تابکاری کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ہیلی کاپٹروں اور ٹرکوں کے ذریعے پلانٹس پر پانی گرایا جار ہا ہے۔
ان جوہری ری ایکٹرز کے گرد 20 کلومیڑ کے علاقے میں مقیم دو لاکھ سے زائد افراد کو مجبوراً اپنے گھر چھوڑ کرجانا پڑا جب کہ وہ لوگ جو ان پلانٹس سے 30کلومیٹر کے دائرے میں اب بھی رہ رہے ہیں حکام نے اُنھیں گھروں کے اندر رہنے کی تلقین کی ہے ۔