جاپان کی تاریخ کے طاقتور ترین زلزلے کے ایک روز بعد حکومت نے کہا ہے کہ اس قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی کا مکمل اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے۔
سرکاری طور پر تقریباَ 300 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے تاہم میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ تعداد کم ازکم 1,300ہے۔
کابینہ کے چیف سیکرٹری یوکی او یڈانو نے صحافیوں کو بتایا کہ ”بدقسمتی سے ہمیں اس تعداد میں اضافے کے لیے تیار رہنا چاہیے“۔
8.9 شدت کے اس زلزلے کے جھٹکے ا س قدر زور دار تھے کہ سونامی کے خوف سے پیسفک رِم کے ارگرد ساحلی علاقوں سے ہزاروں افراد گھروں سے بھاگ کر شمالی اور مغربی امریکہ تک پہنچ گئے۔
شمال مشرقی جاپان کی ساحلی پٹی پر زلزلے سے اُٹھنے والی دس میٹر بلند پانی کی لہروں نے شہروں اور دیہاتوں میں داخل ہو کر اپنے راستے میں آنے والے گھروں اور کشتیوں کو تیرتے ملبے میں تبدیل کردیا۔
زلزلے سے جاپانی جوہری توانائی کی تنصیبات کو نقصان پہنچنے سے حکومت نے متنبہ کیا ہے کہ اِ ن سے تابکاری کے اخراج کا خطرہ ہے ۔ حکام نے ٹوکیوکے شمال میں 240 کلومیٹر دور فوکوشیما میں دو متاثرہ نیوکلیر پلانٹس پر دباؤ کم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور تابکاری کے خطرات سے بچنے کے لیے لاکھوں افراد ان علاقوں سے نکل گئے ہیں۔
ماہرین اور حکومت دونوں کا اصرار ہے کہ روس کے شہر چرنوبل میں ہونے والی ایٹمی تابکار ی جیساکوئی امکان نہیں۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے جاپان کو امدادی کارروائیوں میں مدد کی پیش کش کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ٹرانسپورٹ کے نظام میں خلل پڑنے سے ٹوکیو میں کم سے کم ایک لاکھ سے زائد افرادجمعہ کی شام واپس اپنے گھروں کو نہیں پہنچ سکے۔