بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور جعلی خبر پھیلانے کے الزام میں 21 ماہ سے قید صحافی پیرزادہ فہد احمد شاہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
فہد شاہ 'دی کشمیر والا ' نیوز پورٹل کے بانی و مدیر ہیں جن پر اپنے مراسلوں و تحریروں سمیت سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے دہشت گردی کو بڑھاوا دینے، بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
صحافی کے وکلا کے مطابق ان کے موکل پر یہ الزامات غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون یواے پی اے کی دفعات 18، 121 اور 153 بی کے تحت لگائے گیے تھے۔
وکلا کے مطابق عدالت نے فہد شاہ پر عائد تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہوجاتے تو انہیں عمر قید تک کی سزا ہوسکتی تھی۔
تاہم فہد شاہ پر لوگوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اکسانے اور بیرون ممالک سے غیر قانونی طور پر رقومات حاصل کرنے کے الزامات کے سلسلے میں مقدمہ برقرار رہے گا۔ اُن پریہ الزامات یو اے پی اے کی دفعہ 13 اور فارن کنٹریبیوشن ریگیولیشن ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت لگائے گئے تھے۔
فہد شاہ کے وکلاء نے توقع ظاہر کی ہے کہ عدالتی حکم کے بعد ان کے موکل کو بلوال جیل سے جلد رہا کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ صحافی فہد شاہ کو پولیس نے پانچ فروری 2022 کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے اُن پر جنوبی ضلع پُلوامہ میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لینے کا الزام لگایا تھا۔
اگرچہ اس کیس میں صحافی کو ایک مقامی عدالت سے ضمانت ملی تھی۔ بعدازاں فہد شاہ کو سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کرنے کے احکامات صادر کر کے کوٹ بلوال جیل منتقل کردیا تھا۔
رواں برس اگست میں بھارت کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ملک دشمن قرار دی جانے والی ویب سائٹ 'دی کشمیر والا' اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے انفارمیش ایکٹ 2000 کے تحت نیوز پورٹل پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد ملک میں ای کامرس سائٹس کے ذریعے سائبر کرائم کے ارتکاب کو روکنا ہے۔
عہدیداروں نے ان اقدامات کا دفاع کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ 'دی کشمیر والا' بھارت مخالف پروپیگنڈے میں ملوث ہے اور اس ادارے کو چلانے کے لیے غیر قانونی طور پر رقم حاصل کی جاتی تھی۔
SEE ALSO: بھارت میں قید سات صحافیوں میں سے پانچ مسلمان، حکومت کو آزادیٴ صحافت پر تنقید کا سامنافہد شاہ کی گرفتاری کی صحافیوں اور صحافتی انجمنوں اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی کی گئی تھی اور اُن کی رہائی کا متواتر مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
نیو یارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا تھا "حکام کو چاہیے کہ وہ فہد شاہ کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کردے۔
ایڈیٹرز گِلڈ آف انڈیا نے کہا تھا کہ فہد شاہ کو اس سے پہلے بھی ان کی تحاریر کے لیے متعدد بار پولیس تھانوں پر بلا کر روک لیا گیا ہےاور ان کی گرفتاری کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے صحافیوں کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے اور پھر انہیں قیدی بنانے کے وسیع رجحان کا ایک حصہ ہے۔
گلڈ نے الزام لگایا تھا کہ جموں و کشمیر میں میڈیا کی آزادی بتدریج سلب کی جارہی ہے لیکن فہد شاہ کی گرفتاری کو جائز قرار دیتے ہوئے اُس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے کہا تھا کہ وہ اپنے نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا اکاؤٹس کے ذریعے بھارت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے عادی ہیں اور بار بار متنبہ کرنے کے باوجود اپنی اس روش سے باز نہیں آتے۔