سندھ پولیس نے میرپورخاص شہر سے تعلق رکھنے والے مقامی ٹی وی سے وابستہ ایک صحافی کو توہینِ مذہب اور فساد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس نے بلوچی زبان کے نجی نیوز چینل 'وش' سے تعلق رکھنے والے صحافی اسلم بلوچ کے خلاف مبینہ طور پر ہندو دیوتا کی بے حرمتی اور اس کی ایڈیٹ شدہ تصویر پر ایک سیاسی رہنما کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے اور اسے واٹس ایپ گروپس پر شیئر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔
مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اے اور 153 شامل کی گئی ہیں۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ اس نے موبائل فون پر فیس بک پوسٹ اور ایک واٹس ایپ گروپ میں اسلم بلوچ کی جانب سے بھیجی گئی ایک تصویر دیکھی جس میں ہندو مت کے بڑے اوتار شری ہنومان کی تصویر کو ایڈٹ کرکے شئیر کیا گیا ہے۔
اس ایڈٹ شدہ تصویر کو شئیر کرنے سے ہندو مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کی گئی اور معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
اگرچہ اسلم بلوچ نے واقعے کے فوری بعد ہی اپنے عمل پر معافی مانگ لی لیکن مقدمے پر پولیس نے فوری کارروائی کی اور مذکورہ الزامات پر صحافی کو گرفتار کر لیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے لوہانہ ہندو پنچایت کے نائب صدر اور مقدمے کے شکایت کنندہ رمیش کمار نے کہا کہ ان کی شکایت کے پیچھےمقصد یہ ہے کہ صرف ہندومت ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہیے۔
SEE ALSO: پاکستان میں توہینِ مذہب ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کیوں ہو رہا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ اس تصویر کے شائع ہونے سے ہندو کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی تاہم انہوں نے اس واقعے میں انتظامیہ کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پولیس نے شکایت کے اندراج میں مکمل تعاون کیا۔
وکیل، سول سوسائٹی کے کارکن اور پاکستان ہندو پنچایت کونسل کے جنرل سیکریٹری روی ڈاوانی نے بھی پولیس کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے پاکستان میں رہنے والے لاکھوں ہندوؤں کو تحفظ کا احساس ہو گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ہندو دیوتاؤں اور مندروں کی بے حرمتی کرنے والے ملزمان کے خلاف ماضی میں بھی توہینِ مذہب کے قوانین کا اطلاق کیا جاچکا ہے۔
اُن کے بقول چند سال قبل ڈھرکی میں ایک واقعے میں مندر کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تاہم اس بار ملزم کو بھی فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔
روی ڈوانی کا مزید کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس کیس پر کیسے شواہد جمع کرکے ملزم کے خلاف ٹھوس کیس عدالت میں پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے قبل جب تھرپارکر سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی اور اس میں ایک شخص نے ہندو لڑکے کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی مقدس ہستیوں کو برا بھلا کہےتو اس کیس میں توہین مذہب کی دفعات شامل نہیں کی گئیں۔ یوں ملزم باآسانی ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
روی ڈوانی نے یہ بھی بتایا کہ ایسے بہت سے دیگر واقعات میں بھی سوشل میڈیا پر ہندوؤں کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کی گئی اور ایسی بعض تصاویر تو پارلیمان میں بھی لہرائی گئیں۔ لیکن ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے شکایات کے اندراج کے باوجود ابھی تک ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
صحافی اسلم بلوچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں اور عام طور پر وہ ہندوؤں کے پروگرامز میں بھرپور شرکت کرتے رہے ہیں۔
صحافی کی پریس کلب کی رُکنیت معطل
دوسری جانب میرپورخاص پریس کلب کے صدر نذیر احمد پنہور نے تصدیق کی ہے کہ اسلم بلوچ کی پریس کلب کی رکنیت معطل کردی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرپور خاص پریس کلب کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ اسلم بلوچ کی جانب سے اس دانستہ یا غیر دانستہ عمل سے مذہبی رواداری، ملکی آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔
اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے تحت اسلم بلوچ کو کلب کے انفارمیشن سیکریٹری کے عہدے سے ہٹانے اور ان کے پریس کلب میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
نذیر پنہور کا کہنا تھا کہ صحافی برادری اسلم بلوچ کے اس اقدام کے ساتھ کبھی کھڑی نہیں ہو گی جس سے ہندو برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچے جو صدیوں سے یہاں پُر امن انداز سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ رہتے آرہے ہیں۔
ادھر صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور گیانچند ایسرانی کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی مذہب کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس طرح کا عمل ناقابلِ برداشت ہے جس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور بالخصوص میرپور خاص مذہبی رواداری کے مراکز ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ حرکت سوچی سمجھی سازش کے تحت کی گئی ہوگی تاکہ موجودہ حالات میں مذہبی رواداری کو بھی نقصان پہنچایا جائے۔ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور ملوث تمام ملزمان کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے تحت کارروائی کی جائے گی ۔