پاکستان: مقامی رپورٹر پر توہینِ مذہب کا الزام'صحافی کی سلامتی خطرے میں ڈال دی'

فائل فوٹو

پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے وابستہ رپورٹر اور نیشنل پریس کلب کے سابق صدر وقار ستی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام میں مقدمہ درج ہونے پر سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک صحافی پر ایسا الزام لگا کر اسے شدید خطرات سے دو چار کردیا گیا ہے۔

صحافی وقار ستی کے خلاف روالپنڈی کے ایک کیبل آپریٹر چوہدری ناصر قیوم نے تھانہ آر اے بازار میں ہفتے کو توہین مذہب کی دفعہ 295 اے کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔ اندراجِ مقدمہ کی وجہ صحافی کی وہ ویڈیو بنی جو انہوں نے حال ہی میں ٹوئٹر پر شیئر کی تھی جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی مختلف تقاریر میں استعمال ہونے والے مذہبی جملے شامل تھے جن پر ماضی میں اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔

وقار ستی کی شیئر کردہ ویڈیو میں ان تمام جملوں کو اکٹھا کرکے عمران خان کی تصویر کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔

وقارستی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف ٹوئٹر پر گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے اور اب انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔

صحافی نے کہا کہ ان کے خلاف درج مقدمہ جھوٹ پر مبنی ہے اور وہ اس سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

صحافی وقار ستی۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سرکردہ رہنما ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ وقار ستی کے بقول، " یہ بہت تکلیف دہ معاملہ ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی رہنماؤں اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے اکاؤنٹس سے اس طرح کے ٹوئٹس کیے جائیں۔"

سوشل میڈیا پر صحافیوں کے خلاف ٹرینڈ بنانے کے حوالے سے ردعمل کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اس مقدمے میں اب تک وقار ستی کو گرفتار نہیں کیا گیا جب کہ اس معاملے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے بھی کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں اور غیر جانب دار صحافیوں سے اس معاملے پر ردِ عمل لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وقار ستی نے بتایا کہ وہ اپنے وکلا اور چند صحافی دوستوں سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے بعد کوئی لائحہ عمل اختیار کریں گے۔

مقدمے میں درخواست گزار نے الزام عائد کیا ہے کہ صحافی وقار ستی نے اپنی ٹویٹ میں عمران خان سے نفرت کی وجہ سے توہین آمیز کلمات ان سے منسوب کیے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان نے اپنی کسی تقریر میں ایسے توہینِ مذہب، توہینِ قرآن اور توہینِ صحابہ پر مبنی الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن وقار ستی نے ان الفاظ کا استعمال کرکے عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اے کے مطابق کوئی بھی شخص جو زبانی، تحریری یا کسی اور انداز میں کسی کے بھی مذہبی جذبات کو مجروح کرے یا ان کی توہین کرے تو اسے اس شق کے مطابق دس سال قید بامشقت اور جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

SEE ALSO: غریدہ فاروقی کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، ’’یہ خوفزدہ لوگ ہیں اختلاف رائے کا احترام نہیں کرتے‘‘

وقار ستی کے خلاف درج مقدمے کے خلاف صحافیوں نے اتوار کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر مظاہرہ بھی کیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کسی مہذب معاشرے میں تنقید سے گھبرا کر صحافی پر مقدمات درج کرانے کی مثال نہیں ملتی، صرف تنقید کو روکنے کے لیے وقار ستی کی جان کی سلامتی کو داؤ پر لگانا جمہوری معاشرے کی روایت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی رہنما کے کسی عمل یا بیان کی نشان دہی پر الٹا صحافی کے خلاف مقدمہ درج ہونا فاشسٹ ذہنیت کی نشانی ہے، پنجاب حکومت صحافی وقار ستی کے خلاف بے بنیاد مقدمے کو واپس لے۔ذاتی انتقام لینا ایک حکومت کو زیب نہیں دیتا۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا اپنے ردِ عمل میں کہنا تھا کہ عمران خان اسلام آباد میں میڈیا کی آزادی پر سیمینار کرتے ہیں اور پنجاب حکومت کے ذریعے میڈیا کی آزادی کا قتل کرتے ہیں۔

اس سے قبل اس معاملہ پر جب وقار ستی کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا کر انہیں گستاخ مذہب کہا جارہا تھا ہمارے نمائندے علی فرقان نے مختلف افراد سے بات کی اور ان ٹرینڈز بنانے کے معاملے پر ان کا مؤقف حاصل کیا ۔

صحافتی تنظیموں کا مہم جوئی پر تشویش کا اظہار

پاکستان میں صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے صحافیوں کو ہدف بنانے کی مہم کی مذمت کی ہے اور اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پی ایف یوجے کے صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے صحافیوں کی کردار کشی اور تضحیک آمیز مہم کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ صحافتی تنظیمیں اس طرح کے معاملات کو حساس سمجھتی ہے اور اس پر غور و خوص اور لائحہ ترتیب دینے کے لیے تنظیم کا اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے۔

'پرتشدد جذبات بھڑکانا معاشرے کے لیے تباہ کن ہے'

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی بانی صدف خان کہتی ہیں سوشل میڈیا پر مختلف صحافیوں کے خلاف مہم کوئی نئی چیز نہیں۔ تحریکِ انصاف کی سابق حکومت میں بھی دیکھا گیا تھا کہ بعض صحافیوں کو ہدف بنایا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف مہمات خاص طور پر متشدد جذبات کو بڑھاوا دیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔اس طرح کا رویہ جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

ان کے بقول اگر صحافی خاموش رہیں گے تو عوام تک درست معلومات کی رسائی نہیں ہوگی اور وہ باشعور فیصلے نہیں کرپائیں گے۔

صدف خان نے کہا کہ سیاسی رہنما جب اس قسم کی مہمات کا حصہ بنتے ہیں تو وہ اپنی سیاسی کمزوری کو ہی ظاہر کرتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نفرت انگیز ماحول کے خاتمے کےلیے اپنا حصہ ڈالیں۔