|
طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں ہزاروں لوگ منگل کو سڑکوں پر نکل آئے تاکہ بنگلہ دیش کو شکست دے کر کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اپنی قومی ٹیم کی پہلی بار شرکت کا جشن منایا جا سکے۔
پاکستان کی سرحد سے متصل کئی شہروں سے آنے والی ویڈیوزمیں صبح سویرے سڑکوں پر خوش باش لوگوں کی ریلیز دکھائی گئیں، جن میں دارالحکومت کابل سمیت کچھ علاقوں میں جشن منانے کے لیے فائرنگ کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اب ویسٹ انڈیز میں ہونے والے مقابلوں میں بارش سے متاثرہ ہونے والے اس میچ میں افغان ٹیم نے بنگلہ دیشی ٹیم کے خلاف آٹھ رنز سے ڈرامائی فتح حاصل کرنے کے بعد جشن منایا۔
"یہ ایک ٹیم کے طور پر ہمارے لئے ایک خواب کی طرح ہے ... یہ ناقابل یقین ہے. میرے پاس اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں،‘‘ افغان ٹیم کے کپتان راشد خان نے میچ کے بعد کہا۔
"مجھے یقین ہے کہ وطن واپسی پر ایک زبردست جشن ہونے والا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہمارے ملک کو بہت فخر ہوگا۔" خوشی سے سر شار کپتان نے کہا۔
کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہاکہ متقی نے کپتان راشد خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں اس تاریخی فتح پر مبارکباد دی۔
افغان شہر قندھار میں حکام نے باضابطہ طور پر شہریوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں کے اندر کرکٹ ٹیم کی کامیابی کا جشن منائیں اور سیکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر سڑکوں اور سڑکوں پر جانے سے گریز کریں۔
طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ، قندھار میں رہتے ہیں اور وہیں سے کاروبار مملکت چلاتے ہیں۔
افغانستان نے اپنے مقررہ 20 اوورز میں 115 رنز بنائے، لیکن بارش کی وجہ سے بنگلہ دیش نے کرکٹ کے متعلقہ قوانین کے تحت 19 اوورز میں 114 رنز کے نظرثانی شدہ ہدف کا کے حصول کی کوشش کی۔
راشدخان اور افغان فاسٹ بولر نوین الحق نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار چار وکٹیں حاصل کیں اور بنگلہ دیشی ٹیم کو 17.5 اوورز میں 105 رنز پر آؤٹ کر دیا۔
ویسٹ انڈیز کے شہر تروبا میں پہلے سیمی فائنل میں افغانستان کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہوگا۔
اس تاریخی سیمی فائنل سے دو دن قبل افغانستان نے امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں کرکٹ کی سپر پاور آسٹریلیا کے خلاف اپنی پہلی فتح حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا تھا۔
افغان کامیابی نے آسٹریلیا کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا ہے۔ پیر کو بھارت سے اپنا اہم میچ ہارنے کے بعد آسٹریلیا کو سیمی فائنل میں جانے کے لیے افغانستان کو شکست دینے کے لیے بنگلہ دیش کی ضرورت تھی۔
2001 میں امریکہ کی قیادت میں ملک پر فوجی حملے کے ذریعے طالبان کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد افغانستان میں کرکٹ کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی تھی۔
اس کھیل کو اپنی غریب جنوبی ایشیائی قوم تک پہنچانے کا سہرا ان افغانوں کے سر جاتا ہے جو پاکستان میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے مقیم تھے۔
افغانستان نے 2017 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) میں شمولیت اختیار کی۔ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے قومی ٹیم نے زیادہ تر تربیت باہر حاصل کی ہے اور ملک سے باہر کھیلا ہے۔
بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر افغان خواتین کی تعلیم، ملازمت، کھیلوں اور عوامی زندگی تک رسائی کو محدود کرنے کی وجہ سے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ایسی پابندیاں کچھ ممالک کی جانب سے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ کرکٹ مقابلوں کا بائیکاٹ کرنے کا محرک بنی ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ماضی سے کتنا مختلف ہے؟آسٹریلیا کئی بار افغانستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر چکا ہے۔ گزشتہ مارچ میں آسٹریلیا کے کرکٹ کے عہدہ داروں نے اگست میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی تین میچوں کی سیریز منسوخ کر دی تھی۔ انہوں نے حکومت کے ان خدشات کا حوالہ دیا تھاکہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورتحال ابتر ہو رہی ہے۔
قومی ٹیم کی ورلڈ کپ کی غیر معمولی کامیابی اور افغانستان میں اس کے نتیجے میں ہونے والی تقریبات برسوں کی جنگ اور قدرتی آفات کی وجہ سے ملک کے گہرے ہوتے معاشی، انسانی اور انسانی حقوق کے بحرانوں کے برعکس ہیں۔