|
اسلام آباد _ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ جہاں کئی سیاسی رہنماؤں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی شکایات پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں پریس کانفرنس کیں وہیں ججز کی دہری شہریت کے معاملے پر ایک قانون بھی ایوان میں پیش کر دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے تین اہم ستون عدلیہ، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس تناؤ میں بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پارلیمان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔
عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں اُس وقت بڑھیں جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کے خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثرانداز ہونے اور مبینہ طور پر عدالتی کام میں مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک اور جج بابر ستار کا بھی خط سامنے آیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایوانِ بالا میں حکومتی ارکان کی تقاریر کے بعد بظاہر ایسا اشارہ ملتا ہے کہ حکومت، عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کی صورتِ حال میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے فریق بن رہی ہے۔
اے این پی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں کہا تھا " ایسا لگتا ہے کہ یہ ایوان پھر کسی خاص مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے ہم کیوں پرائی لڑائی میں گھس رہے ہیں۔"
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ججز اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی میں کس کا ساتھ دینا اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کی اہم جماعتیں ایک ساتھ ہیں کیوں کہ اکثر سیاسی جماعتوں کو ماضی میں عدلیہ سے شکایتں رہی ہیں۔
دوسری جانب مبینہ طور پر عدلیہ مخالف پریس کانفرنس کرنے والے سابق وفاقی وزیر، سینیٹر فیصل واوڈا اور رکنِ قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کو توہینِ عدالت کے نوٹسز کا بھی ردِعمل سامنے آیا ہے۔
اپوزیشن میں شامل جماعت جے یو آئی (ف) کے رکنِ قومی اسمبلی نور عالم خان نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں ججز سے متعلق دو ترامیم کے بلز جمع کرائے ہیں۔ جن میں سے ایک توہینِ عدالت کے آرڈیننس 2003 کو منسوخ کرنا اور دوسرا بل دہری شہریت رکھنے والے شخص کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا جج تعینات کرنے پر پابندی کا بل ہے۔
کیا حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے؟
پارلیمان کو 1985 سے مسلسل رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی نصرت جاوید کے خیال میں توہین عدالت کے نوٹس کے بعد حکومتی اتحاد سینیٹر فیصل واوڈا کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ فیصل واوڈا فرد واحد نہیں ان کا کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق ہے۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نصرت جاوید نے کہا کہ "حکومت عدلیہ سے فاصلہ اختیار کرتے نظر آ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی عدالتوں سے شکوے ہیں اور بعض حکومتی رہنما ججز کے خطوط والے معاملے کو کسی اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں ججز کا ایک ساتھ خط لکھنے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ "ماضی میں عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی اب پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد پورے کرنے کے لیے ان کا ساتھ دے رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ فیصل واوڈا نے خود ہی پریس کانفرنس کر دی ہو مگر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے کسی کے کہنے پر پریس کانفرنس کی۔ میرے سوال پر وزیر قانون نے یہ سینیٹ میں وضاحت کی کے سینیٹ کا اجلاس پارلیمانی کلینڈر کے تحت بلایا گیا ہے مگر بظاہر لگتا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس توہین عدالت کے نوٹسز پر بات کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس حوالے سے میچ فکس تھا۔ ایوان بالا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
توہینِ عدالت کے نوٹس ملنے کے بعد فوری طور پر سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا۔ جہاں اس معاملے پر دھواں دھار تقاریر بھی ہوئیں۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ، پیپلزپارٹی کے سینیٹر بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ " بظاہر حکومت اور عدلیہ کے درمیان کلیش نظر آرہا ہے۔ بعض حکومتی عہدیدار یہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمینٹ کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ماضی کی تاریخ بھی ایسے معاملات کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ آئین میں اداروں کی حدود طے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
سینیٹر ضمیر گھمرو کے مطابق "پارلیمنٹ کو توہینِ عدالت کے متعلق نیا قانون بنانا چاہیے۔ یہ پارلیمینٹ کا اختیار ہے۔ توہین عدالت کے متعلق صوبائی سطح پر بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔"
کیا توہینِ عدالت آرڈیننس اور ججز کی دہری شہریت پر پابندی کے بل منظور ہو پائیں گے؟
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے قومی اسمبلی میں دو ترامیم کے بلز جمع کرائے ہیں ان میں ایک آئین میں ترمیم کا بل ہے جو دہری شہرت رکھنے والے کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں تعینات کرنے پر پابندی سے متعلق ہے۔
آئین میں ترمیم کا بل منظور کرانے کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ ایسے میں موجودہ اسمبلی میں آئین میں ترمیم پی ٹی آئی کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
صحافی نصرت جاوید کے مطابق نور عالم کا دوسرا بل موجودہ صورتِ حال میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ توہین عدالت آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا بل حکومت چاہے تو منظور کروا سکتی ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جی یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ" نور عالم خان ہمارے رکن قومی اسمبلی ہیں مگر ان کی جانب سے انفرادی حیثیت میں دونوں بل جمع کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی میں اس معاملے پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی جہاں تک میری معلومات ہے ان بلوں پر مولانا فضل الرحمان سے بھی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں توہین عدالت کا قانون ختم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ان دنوں جو صورتِ حال بنی ہوئی ہے اس میں ہمارے رکن کی جانب سے اس طرح کا بل سامنے آنا مناسب نہیں ہے۔ ایک رکن کے طور پر نور عالم کا بلز جمع کرانا ان کا حق ہے۔ اس طرح ان کے اس فیصلے کے ساتھ اختلاف کرنا بھی میرا حق ہے۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کا کہنا ہے کہ بطور رکن یہ میرا آئینی حق ہے کہ میں کوئی بھی بل پیش کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر وہ کام کریں گے جس سے میرے ملک اور قوم کا فائدہ ہو۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کے خیال میں توہین عدالت آرڈیننس کی منسوخی کے بل کو شاید حکومت منظور کروا لے گی۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ آرڈیننس کی منسوخی کا بل منظور ہونے کے بعد یہ معاملہ عدالت تک پہنچ سکتا ہے اور تلخیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔