جسٹس فائز عیسیٰ کیس: حکومت تفصیلی فیصلے پر ناخوش، وکلا کا ملاجلا ردِعمل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہفتے کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکلا نے وزیرقانون فروغ نسیم کے بیان کی مذمت کی ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلہ کو انہوں نے تضاد کا شکار قرار دیا تھا۔ سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون نے جو تحفظ فراہم کیا ہے وہ سرینا عیسیٰ کا حق ہے، فروغ نسیم کا بیان اپنی سیاسی جماعت کے تحفظ کے لیے ہے لیکن اس کے ذریعے عدلیہ کی تضحیک نہ کی جائے۔

بعض وکلا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر قانون کے اداروں کو جواب دہ ہوتا ہے، اگر معلومات لینے کا طریقہ کار درست نہ بھی ہو تو معلومات تو موجود ہیں، اس معاملہ میں نیب کرپشن کا جائزہ لے سکتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا نو ماہ بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو اس اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

وزیرِ قانون فروغ نسیم نے عدالتی فیصلے کو غلط اور تضادات پر مبنی قرار دیا تھا۔

فیصلے میں کیا ہے؟

یہ تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر ، جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس قاضی امین الدین نے تحریر کیا ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا جس میں جسٹس فائز کی اہلیہ سرینا عیسٰی کی نظر ِثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی گئی تھی جب کہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سنایا تھا۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں دوسری طرف کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے کے مطابق جسٹس فائز عیسی فیملی کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، ان کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔ آئین کے تحت سرکاری افسر ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کراسکتے، فیصلے میں سرینا عیسیٰ کے ٹیکس معاملے میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی ہدایات کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔

فیصلہ میں قراردیا گیا کہ یہ عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی ہے، قانون کے مطابق فیصلے کرنے سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا، سرینا عیسی اور ان کے بچے عام شہری، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثرانداز نہیں ہو گی، ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسی برطرف ہوجاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسی کے حق میں بھی آ سکتی تھی۔

فیصلہ میں کہا گیا کہ ممکن تھا کہ برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسی ریٹائر ہوچکے ہوتے، ایسا بھی ممکن تھا کہ جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ تسلیم نہ کرتی، سوموٹو لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے۔ آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے اور چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔19 جون 2020 کے فیصلہ سےسرینا عیسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ احکامات جاری کرنے سے قبل سیرینا عیسی کو اپنے مؤقف کا پورا موقع ملنا چاہیے تھا۔

تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے تاہم کسی بھی شخص کو چاہے وہ اس عدالت کا جج ہی کیوں نہ ہو اس کے آئینی و قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے،قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کا ہی حقدار ہے،کمرہ عدالت شیشے کے گھر جیسا ہوتا ہے۔

ججز شیشے کے گھر نما کمرہ عدالت میں بیٹھ کر بلا خوف فیصلے کرتے ہیں،ان کے بے خوف فیصلوں کے سبب بعض اوقات ان پر انگلیاں بھی اٹھائی جاتی ہیں۔بعض اوقات ججوں کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، ججوں کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے عوامی فورم بھی نہیں ہوتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل کو از خود نوٹس لینے کا نہیں کہہ سکتی ہے، فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ مالی طور پر خود مختار اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس معاملات کے لیے جج جواب دہ نہیں ہو سکتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے الگ نوٹ میں قرار دیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت پانچ سال پرانے ٹیکس کے معاملات کو ایف بی آر ری اوپن نہیں کرسکتا تھا، عدالت کی جانب سے ٹیکس کے پانچ سال سے پرانے معاملے کو انکوائری کے لیے ایف بی آر کو بھیجنا ایک متوازی ٹیکس سسٹم قائم کرنے کے مترادف ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی ہے،قانون کی حکمرانی احتساب سے ہی قائم ہوتی ہے لیکن یہ چیز بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ججزکا احتساب مصنوعی طریقوں سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔

عدالت کا یہ آرڈر کسی بھی جج بشمول جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدر ،سپریم جوڈیشل کونسل اور ٹیکس حکام کی کارروائی کا قانونی ا ختیار کم نہیں کرتا ہے لیکن اختیار کے استعمال کے وقت خصوصی طور پر ٹیکس حکام کو اپنی قانونی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

اضافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کے معاملات میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات غیر قانونی ہیں، اور ان غیر قانونی ہدایات کی وزیراعظم عمران خان نے بھی توثیق کی ہے جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضاد ہے، نظرِثانی کا حق ہے: فروغ نسیم

وزیرقانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں بلکہ اس میں تضاد ہے جس پر حکومت نظرثانی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

نجی ٹی وی جیونیوز کے پروگرام میں اس فیصلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ اگر معزز جج کو اپنے اہلخانہ کے معاملات سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے تو پھر میں کیوں اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کروں؟ یا وزیراعظم کیوں اپنے اہلخانہ کے اثاثے ظاہر کریں، معزز ججز کےاختیارات اور احترام سب سےزیادہ ہے تو ذمے داری بھی سب سے زیادہ ہے۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسزعیسیٰ اپنےذرائع آمدن بتانےمیں ناکام رہیں، آج بھی مسز عیسیٰ کے پاس اپنےاثاثوں اورآمدن سے متعلق کوئی وضاحت نہیں، اگر مسز عیسیٰ وضاحت کر دیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ان کی طرف سے صرف یہ کہہ دینا کہ ان کا تعلق ایک امیر خاندان سے ہے کافی نہیں ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی اپنی ٹوئٹ میں فروغ نسیم کے بیان کی تائید کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو عالمی رینکنگ میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

فروغ نسیم سرکاری مؤقف بیان کر رہے ہیں, امان اللہ کنرانی

سابق سینیٹر اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اس حوالے سے کہا کہ آئین نے ہر شخص کو حق دیا ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، آئین نے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ دیا ہے۔ یہ فیصلہ چھ ججز کا ہے کہ ایک شہری کی حیثیت سے سرینا عیسیٰ کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔

اُن کے بقول سرینا عیسیٰ کا شہری کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے ، ان کا کیس الگ سے خصوصی طور پر کسی جگہ نہیں لے کر جایا جاسکتا۔ قانون کا احترام ہر کسی پر لازم ہے اور باز پرس ہونا بھی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کے معاملہ میں عدالت نے طے کر دیا ہے کہ ماضی میں جب قانون ہی موجود نہیں تھا تو اس وقت کی ٹرانزیکشن کو موجودہ دور کے قوانین کے مطابق کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہےسرینا عیسیٰ نے اگر ریکارڈ دیا ہوتا اور منی ٹریل دی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص وکالت کرتا ہے اور اسمگلنگ بھی کرتا ہے اور پیسہ سب ظاہر کر بھی دیا جائے تو اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدن کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے الگ سے کارروائی ہونی ہے۔ سرینا عیسیٰ کو ٹریل دینا ہو گی،صرف اس بات پر کہ جج کی اہلیہ سے نہیں پوچھا جاسکتا اس سے برابری کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ اگر ایک شخص کی اہلیہ بیرون ملک کوئی جائیداد خریدتی ہیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا تو اس صورت میں وہ شخص اس بارے میں مکمل طور پر جواب دہ ہے۔ کیونکہ پھر وہ ہی اس آمدن کا ذمہ دار ہے۔

پس منظر

مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

بعد ازاں سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

23 اکتوبر 2020 کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جس میں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن جج کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیرِ قانون سے اجازت لینا قانون کے مطابق نہیں۔

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس جاری کر کے جواب نہیں لیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جو 224 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا۔