اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر بیان حلفی کیس میں توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم، صحافی انصار عباسی و دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کے خلاف فردِ جرم خود پڑھ کر سنائی۔
فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ آپ کا ضمیر تین سال سویا رہا اور اچانک جاگا، اب بیانِ حلفی دینے کا مقصد عدالت پر اثر انداز ہونا تھا۔ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے زیرِ التوا کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں کیا آپ اُنہیں تسلیم کرتے اس پر رانا شمیم نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا۔
عدالت نے رانا شمیم کی معاملے کی انکوائری کرانے کی درخواست اور پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔
عدالت نے رانا شمیم کو 15 فروری کو اپنا دفاع پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
کمرۂ عدالت میں سابق چیف جج رانا شمیم جذباتی ہو گئے اور کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے فردِ جرم عائد کرنے کا۔ اگر ایسا کرنا ہے تو مجھے آج ہی لٹکا دیں۔
رانا شمیم نے کہا کہ میرے ساتھ ایسی زیادتی نہیں ہونی چاہیے اگر سزا سنانی ہے تو ابھی سنا دیں۔
رانا شمیم نے استدعا کی کہ اُنہیں کراچی سے آنا پڑتا ہے، لہذٰا عدالت فوری طور پر کوئی نئی تاریخ نہ دی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کہ آپ کے خلاف فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔ لہذٰا عدالت جب بھی بلائے آپ کو آنا پڑے گا۔
عدالت نے فردِ جرم عائد کرنے کے بعد کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔
رانا شمیم پر فردِ جرم عائد ہونے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا ردِعمل
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے رانا شمیم پر فردِ جرم عائد ہونے کے حوالے سے وائس آف امریکہ کے سوال پر کہا کہ میں تو اس معاملے کو فالو نہیں کر رہا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آج کیا ہوا ہے؟ وائس آف امریکہ کی طرف سے رانا شمیم پر فردِ جرم عائد ہونے کا بتانے پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ کیا وہ اس کیس میں عدالت میں پیش ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں مفروضوں پر کبھی نہیں چلتا، جو بھی کورس آف لا ہو گا اس کے مطابق میں چلوں گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کریئر میں کبھی مفروضوں کو نہیں دیکھا جو بھی آئین اور قانون کے مطابق ہو گا اس کے مطابق چلوں گا۔
سماعت کے دوران مزید کیا ہوا؟
سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے رانا شمیم کو کہا کہ آپ روسٹرم پر آ جائیں، ہم چارج فریم کرتے ہیں۔
اس پر رانا شمیم نے استدعا کی کہ میرے وکیل لطیف آفریدی کو آنے دیں، اس پر عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی۔ اس عدالت کی مزید کوئی بے توقیری نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے؟ اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عدالت کا احترام کرتے ہوئے کیس کی کارروائی آگے چلانے دیں، یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت کے ججز 'کمپرومائزڈ' ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم نے بیانِ حلفی میں سنگین الزامات عائد کیے۔ ہمیں کچھ نہیں چھپانا، نہ چھپائیں گے۔ جولائی 2018 سے آج تک بتائیں کہ کون سا حکم کسی کی ہدایت پر جاری ہوا؟
اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کی رائے کے مطابق صحافیوں کی حد تک فردِ جرم کی کارروائی مؤخر کی جائے، آپ نے جو محتاط رویے کی بات کی تھی اس کو بھی مستقبل میں دیکھا جائے گا۔
پی ایف یو جے کے افضل بٹ بھی روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم زیرِ سماعت کیسز پر رپورٹنگ اور تبصرے کے حوالے سے مختلف میٹنگز کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آ کر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے۔ آپ کو احساس تک نہیں کہ زیرِ سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے۔
'سمجھتے ہیں کہ یہ عدالت آخری اُمید ہے'
انہوں نے کہا کہ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے۔ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے فکس تھا جب اسٹوری شائع کی گئی۔
افضل بٹ نے کہا کہ یہ بات حلف پر کہنے کو تیار ہوں کہ صحافی اس کورٹ پر مکمل یقین رکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ کورٹ آخری امید ہے۔
سینئر صحافی اور پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا کہ مجھے بھی کچھ کہنے کی اجازت دی جائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ ان کا ثانوی کردار ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی۔ آپ نے جو کہا سب ٹھیک مگر اس عدالت نے لوگوں کے اعتماد کی بھی حفاظت کرنی ہے، یہ عدالت کسی جج کو تحفظ نہیں دے رہی۔ اس عدالت کے ساتھ ایسا نہ کریں۔
'یہ نہ کہیں کہ صحافی صرف پیغام رساں ہیں، انہیں بھی تحقیق کرنی چاہیے'
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر صحافی یہ کہیں کہ ہم صرف میسنجر ہیں، تحقیق ہمارا کام نہیں تو یہ زیادتی ہے۔
ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم آزاد عدلیہ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہوتے رہے مگر اس بار یہاں سے ہم بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ عدالتی رپورٹنگ سے متعلق ہم کچھ چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ان کی رائے میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے دی جائے۔
ناصر زیدی نے کہا کہ ہم نے ملٹری کورٹس کا سامنا کیا ان کا مقابلہ کیا۔
اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ نے کوڑے کھائے ہیں، کوڑا زیادہ زور سے لگتا ہے۔
ناصر زیدی نے کہا کہ ایڈیٹوریل یا رپورٹر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے، عدالت توہینِ عدالت کی کارروائی کرے گی تو پوری دنیا میں اچھا میسج نہیں جائے گا۔ پاکستان میں آزادیٔ اظہار کا گلا پہلے ہی دبایا جا رہا ہے، توہینِ عدالت کی کارروائی ہوئی تو بہت مشکل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یقین ہے آزادیٔ اظہار رائے نہیں ہو گا تو عدلیہ کا احتساب بھی نہیں ہو سکے گا۔
ناصر زیدی نے کہا کہ ہم کوڈ آف کنڈکٹ بنانے جا رہے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ آج پہلی بار میڈیا کی جانب سے لگ رہا ہے ندامت کا اظہار ہو رہا ہے۔ دوسری طرف رانا شمیم صاحب اپنا بیانِ حلفی مان رہے ہیں ان کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا جانا چاہیے، اگر رانا صاحب کسی اور کو پراسیکیوٹر چاہتے ہیں تو کر دیں۔
اٹارنی جنرل نے انصار عباسی، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف پر فردِ جرم مؤخر کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ لوگ استعمال بھی ہو جاتے ہیں لیکن میڈیا کو اس سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن زیدی صاحب نے نہیں بتایا کہ کوڑا لگتا کیسے ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ میں اپنے والد سے پوچھ کر بتاؤں گا، میری تو والدہ نے بھی جیل کاٹی تھی۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ صحافتی تنظیم نے بڑی اچھی بات کی ہے، یہی بات میڈیا پرسنز بھی کر دیں۔ ان کی طرف سے بھی ایسا جملہ آنا چاہیے کہ وہ آئندہ مزید محتاط رہیں گے، ندامت ہونی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ کوئی معافی مانگے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ صحافیوں کے خلاف چارج فریم نہ ہو، مگر ایسا بھی نہ ہو ایک کے خلاف چارج فریم ہو اور تین کو بری کیا جائے، اس کیس میں تمام فریقوں کو ندامت ہونی چاہیے۔
صحافیوں ک طرف سے غیرمشروط معافی نہ مانگے جانے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی کو کہا کہ زیدی صاحب باقیوں کی انا شاید بڑی ہے۔ آپ نے کہا شاید غلطی ہو گئی ہو، لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اگر دورانِ سماعت سامنے آیا کہ جان بوجھ کر ایسی خبر چھاپی گئی تھی تو تینوں صحافیوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
رانا شمیم بیانِ حلفی معاملہ کیا ہے؟
جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی انصار عباسی نے 15 نومبر کو شائع ہونے والی خبر میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیانِ حلف سے متعلق خبر دی تھی۔
بیانِ حلفی میں رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ اُنہوں نے اسلام ہائی کورٹ پر دباؤ ڈالا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت 2018 کے الیکشن سے قبل منظور نہ کی جائے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد اسلام اباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، دی نیوز اخبار سے وابستہ صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر عامر غوری اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان پر سات جنوری کو توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔