صدر اشرف غنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کے پاس افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے آخر کار ایک واضح منصوبہ موجود ہے، جس کے تحت چھ ماہ میں ملک میں استحکام قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
افغانستان کے کئی علاقوں میں گزشتہ تین ماہ کے دوران امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ طالبان جنگجووں کی جانب سے کئی علاقوں پر قبضے کی پے درپے اطلاعات کی وجہ سے صدر غنی کی حکومت کو گزشتہ تین ماہ کے دوران زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ کی رپورٹ کے مطابق، صدر غنی نے پیر کو افغان پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگلے چھ ماہ کے دوران افغانستان میں استحکام قائم کرنے کے لئے منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔
یہ افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلاٗ کے اعلان کے بعد پہلا موقعہ تھا کہ صدر غنی افغان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا ہے کہ فوج اہم سٹریٹیجک اہداف کی حفاظت کرے گی، پولیس وزارت داخلہ کے تحت شہروں اور اہم اضلاع کی حفاظت کا ذمہ اٹھائے گی۔ جبکہ افغانستان کی انٹیلجنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) طالبان مخالف مسلح گروہوں یا ملیشیا سے رابطے رکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلے تین ماہ کے دوران ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا کیا ہے، جس میں، ان کے بقول، 'افغانستان کو اندرون ملک اور بیرونی سطح پر کیا جانے والے پروپیگنڈے میں تیزی کا بھی سامنا ہے'۔ انہوں نے افغان قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں کو سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لئے متحرک کریں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق اشرف غنی نے اپنے خطاب میں افغانستان میں تشدد کی صورتحال سنگین تر ہونے کی ذمہ داری امریکی فوج کے تیزی سے انخلا پر عائد کی۔ اور کہا کہ ان کی انتظامیہ اب صوبائی دارلحکومتوں اور اہم شہری مراکز کو محفوظ بنانے پر توجہ دے گی۔
افغان صدر نے کہا کہ افغانستان کی افواج بلند حوصلے کی مالک ہیں اور وہ باغیوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جبکہ ان کے بقول، طالبان پائیدار اور منصفانہ امن میں یقین نہیں رکھتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر افغان صدر نے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا۔ پارلیمان کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے، اشرف غنی کابل میں محل دارالامان رکے جہاں انہوں نے گارڈ آف آنر کے دستے کا معائنہ کیا۔
کچھ اطلاعات کے مطابق گزشتہ کچھ ہفتوں سے افغان فوج طالبان کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب دکھائی نہیں دی، جنہیں اکثر اوقات نئی کمک اور رسد میسر نہیں آ پائی۔
افغان مسلح افواج کے ترجمان، جنرل اجمل عمر شنواری نے اتوار کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ جنوبی اور مغربی افغانستان میں واقع تین صوبوں کی سیکیورٹی کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ جنوبی قندھار کے علاوہ، جو طالبان کی آماجگاہ ہے، ہلمند اور ہرات کے صوبوں پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔
ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ، عطا اللہ افغان نے بتایا ہے کہ طالبان صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں، جہاں وہ اب تک شہر کے ساتویں اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں۔ پیر کے روز جدید تربیت یافتہ افغان کمانڈوز کے دستے کو شہر کے دفاع کے لیے لشکر گاہ روانہ کیا گیا ہے۔