|
امریکی ریاست کنساس کے ایک اخبار کے ناشر نے پولیس کے چھاپے کے بعد اس کارروائی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
اخبار ماریون کاؤنٹی ریکارڈ نے پولیس پر امریکی آئین کی آزادی رائے اور پریس کی آزادی کی ضمانت دینے والی پہلی ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔
جب ماریون کے علاقے میں پولیس نے اخبار کے نیوز روم اور اس کے پبلشر ایرک میئر کے گھر پر گزشتہ سال اگست میں چھاپہ مارا تو اس اقدام کی آزادیٔ صحافت کے گروپوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی تھی۔
میئر نے کہا کہ وہ مقدمہ دائر کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے ہفتہ وار اخبار پر چھاپے کے پورے امریکہ میں آزادیٔ صحافت پر بڑے مضمرات ہیں۔
پبلشر نے وائس آف امریکہ کو مقدمے کے حوالے سے بتایا کہ "ہم اس کے مدعی ہیں، لیکن حقیقت میں، مدعی امریکی جمہوریت ہے۔"
SEE ALSO: پہلی ترمیم: ’امریکہ کو دنیا میں منفرد بنانے والی قانون سازی‘"انہوں نے پولیس کے حوالے سے کہا کہ "وہ تنقید کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
میئر کے بقول پولیس اہلکار سوائے اس آواز کے جو وہ سننا چاہتے ہیں وہ ہر آواز کو خاموش کرانا چاہتے ہیں۔
میئر کے گھر کی فوٹیج سے پتا چلتا ہے کہ ایرک کی 98 سالہ والدہ جون جو اخبار کی شریک مالک ہیں، اپنے گھر پر چھاپے کے دوران پولیس کا سامنا کر رہی ہیں۔
مقدمے میں میئر نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ چھاپے کے دباؤ کی وجہ سے اگلے دن ان کی والدہ کی موت واقع ہوئی۔
SEE ALSO: امریکہ میں صحافتی آزادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت پر زورمقدمے میں کہا گیا کہ چھاپے کے بعد میئر کی والدہ جون نے "بار بار اپنے بیٹے کو بتایا کہ اس کی پوری زندگی بے معنی ہے اگر میریون کے ساتھ ایسا ہونا تھا۔"
پولیس نے گیارہ اگست کو ہونے والے چھاپے کا دفاع کیا تھا۔
خیال رہے کہ مذکورہ اخبار چھاپے کی قیادت کرنے والے پولیس چیف کے بارے میں ایک تفتیشی رپورٹ پر کام کر رہا تھا۔
پولیس چیف گیڈون کوڈی نے بالآخر اکتوبر میں استعفیٰ دے دیا جب باڈی کیمرہ فوٹیج میں انکشاف ہوا کہ وہ اپنے بارے میں فائلوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔
اخبار کے پبلیشر میئر نے کہا کہ یہ چھاپہ ذاتی فائدے کے لیے فوج داری نظام انصاف کو ہتھیار بنانے کی کوشش تھی۔