جب ان سے پاکستانی نیوز چینل اے آروائی پر عائد بندشوں اور اس کے ایک صحافی کے خلاف مبینہ تشدد کے متعلق پوچھا گیا تو ترجمان نے کہا: "ہم پاکستان میں میڈیا آؤٹ لیٹس اور سول سوسائٹی پر نمایاں پابندیوں سے پریشان ہیں"۔
"ہم پاکستان میں اپنے شراکت داروں اور ہم منصبوں سمیت دنیا بھر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پریس کی آزادی کے بارے میں اپنے خدشات کو معمول کے مطابق اٹھاتے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو اس بات پر تشویش ہے کہ میڈیا اور مواد کی پابندیاں، نیز صحافیوں کے خلاف حملوں کے لیے جوابدہی کی کمی، آزادی اظہار اور پرامن اجتماع جیسی سرگرمیوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایک آزاد پریس اور باخبر شہری دنیا بھر کے جمہوری معاشروں کی اور جمہوری مستقبل کی کلید ہے۔ "اس کا اطلاق پاکستان پر بھی اتنا ہی ہوتا ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک پر ہوتا ہے۔"
خیال رہے کہ اے آر وائی نیوز چینل نے کہا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے حکومتی نگران ادارے پیمرا نے ملک بھر میں اس کی نشریات بند کر دی تھیں۔ جب کہ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر چینل کی نشریات بحال کر دی گئی ہیں لیکن اسے شکایت ہے کہ نشریات کو بار بار بند کر دیا جاتا ہے۔
میڈیا کی آزادی کے علمبردار ادارے "رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز" کے سن 2022 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا میں پریس کی آزادی کے حوالے سے157 ویں نمبر پر ہے جہاں صحافیوں کو کئی خطرات درپیش ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی صحافیوں کے مسائل میں اضافہ ہوا جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں آزادی صحافت پر قدغن لگائی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی کمشمکش میں صحافیوں کو کسی ایک پارٹی کے نقطہ نظرکوبہتر پیش کرنے کی پاداش میں تشدد اور بندشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں اپنی حکومت کی جانب سے آزادی صحافت کے لیے پرعزم رہنے کا اظہار کیا اور کہا کہ صحافی برادری نے مشکلات کے باوجود اپنا کام جاری رکھا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے بھی حال ہی میں جمہوریت میں صحافت کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سینیئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ملک کی تمام بڑی تنظیمیں آزاد اور ذمہ دار انہ صحافت پر یقین رکھتی ہیں۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی حکومتیں سوشل میڈیا سے پریشان ہوکر فیک نیوز کے خلاف اقدامات کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن انہوں نے زور دیا کہ حکومتوں کو فیک نیوز سے نمٹنے کی آڑ میں آزاد ی صحافت پر پابندیا ں عائد نہیں کرنی چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے لیے آزادی رائے اور حفاظت کے حوالے سے کوئی بھی دور تسلی بخش نہیں رہا۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ صحافی برادری کا مطالبہ ہے کہ آئین پاکستان میں واضح طور پر آزادی صحافت کی ضمانت دی جائے۔
صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے انہوں نے زور دیا کہ اس سلسلے میں قانون سازی تو ہو چکی ہے لیکن ابھی تک صحافیوں کی حفاظت کے لیے جس کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے وہ نہیں بنایا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کمیشن کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے۔
"جب تک ملک میں آزادی صحافت نہیں ہوگی، صحیح معنوں میں جمہوریت قائم نہیں ہو گی"۔