جمعرات کو کراچی پریس کلب میں قانون نافذ کرنے والے مسلح اہلکاروں کے داخلے پر سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو کراچی پریس کلب میں بعض اسلحہ بردار قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے داخلے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مبینہ واقعے پر صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔
احتجاجی مظاہرے میں شریک صحافیوں نے پریس کلب میں مسلح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے مبینہ داخلے اور وہاں موجود صحافیوں کو زد و کوب کرنے کی شدید مذمت اور نعرے بازی کی۔ صحافیوں نے پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی ریلی نکالی اور ایوان صدر روڈ پر دھرنا بھی دیا۔
صحافی رہنماؤں نے گورنر سندھ کو یادداشت پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ورنہ احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔
اس سے قبل، اجلاس میں بھی واقعے کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی گئی۔
صحافی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’’کراچی پریس کلب انسانی حقوق، جمہوری روایات اور آزادی اظہار رائے کا مرکز ہے۔ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد صحافیوں کو ہراساں کرنا اور انہیں مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کرنے سے روکنا ہے‘‘۔
کراچی پریس کلب کے صدر ملک احمد اعوان نے واقعے کو ’’کراچی پریس کلب کا تقدس پامال کرنے کی سازش‘‘ قرار دیا اور گورنر اور وزیر اعلی سندھ سمیت سے واقعے کی مکمل تحقیقات کرانے کا اور ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ رات کراچی پریس کلب میں اچانک سادہ لباس میں درجنوں مسلح افراد نے گھس کر صحافیوں کو ہراساں کیا اور مختلف کمروں، باورچی خانہ، عمارت کی بالائی منزل اور اسپورٹس ہال کا جائزہ لیا اور زبردستی موبائل کیمرے سے کلب کے مختلف حصوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بنائیں۔
مسلح افراد کے پریس کلب میں داخلے سے وہاں موجود صحافیوں میں بے چینی پھیل گئی۔ پریس کلب کے ارکان نے اُن سے بازپرس کی تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور تیزی سے فرار ہوگئے۔
دوسری جانب، مشیر اطلاعات حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے تسلیم کیا ہے کہ پریس کلب میں داخل ہونے والے مسلح افراد قانون نافذ کرنے والے اہلکار تھے۔ ان کے مطابق، ابتدائی طور پر یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی "غلط فہمی" کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’واقعے کی مزید تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ پر صوبائی حکومت ضرور ایکشن لے گی‘‘۔
کراچی پریس کلب کی منفرد تاریخ اسے ملک کے دیگر پریس کلبوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کلب سے وابستہ صحافی ہمیشہ سے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں تحاریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ تاریخ میں کبھی اس سے قبل مسلح افراد یا قانون نافذ کرنے والے اہلکار یہاں داخل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعے پر صحافیوں میں شدید بے چینی پائے جاتی ہے۔
دوسری جانب، پریس کلب کی انتظامیہ کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر احمد شیخ نے بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق، سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اہلکار اور افسران پریس کلب میں داخل ہوئے تھے۔ تاہم، ان کے داخلے کی کوئی ٹھوس وجوہات اب تک سامنے نہیں آئیں۔