کراچی میں بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اور حکومتی اقدامات کے بعد شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 87فیصد کمی آگئی۔ یکم جنوری2011ء سے 24 اگست2011ء تک ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں 971 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے از خود نوٹس کے بعد دو ماہ میں صرف30 ہلاکتیں ہوئیں۔
شہر میں قیام امن سے ایک جانب تو خوف و ہراس کی فضاء کا خاتمہ ہو ا تو دوسری جانب تجارتی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے جبکہ شہر کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں ۔
ہیومن رائٹس اور واقعات کی بنیاد پر جمع کردہ اعداو وشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر 971 افراد لقمہ اجل بنے یعنی ہر ماہ اوسطاً 121 افراد کی ہلاکتیں۔ شہر میں بد امنی کے باعث نہ صرف شہری عدم تحفظ کا شکار تھے بلکہ کاروباری سرگرمیاں بھی شدید متاثر تھیں ۔
ماہ جولائی اور 24 اگست تک 471 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ملک کے تینوں ستون یعنی عدلیہ ، فوج اور پارلیمنٹ حرکت میں آ گئے ۔25 اگست کو آرمی چیف کراچی پہنچے اور امن و امان سے متعلق اہم اجلاس کے دوران حساس اداروں کو ہدایات جاری کیں ، اسی روز حکومت سندھ نے کراچی میں رینجرز کے اختیارات میں اضافہ بھی کر دیا ۔ 26 اگست کو سپریم کورٹ نے بھی کراچی بد امنی پر از خودنوٹس کی باقاعدہ سماعت شروع کر دی جبکہ 28 اگست کو کراچی اور بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔
مذکورہ اقدامات سے شہرمیں امن و امان کی صورتحال میں انتہائی خوشگوار تبدیلی دیکھی گئی ، پولیس اور رینجرز کے علاوہ ایف سی کی کارروائیوں نے شر پسند عناصرپر قابو پالیا ۔ ایک طرف تو پرتشدد واقعات ،بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات انتہائی کم ہو گئے تو دوسری جانب بھتے کی پرچیوں سے تنگ تاجروں کو بھی سکون کا سانس نصیب ہوا ۔ ستمبر میں صرف دس اور 27اکتوبر تک بیس افراد ہلاک ہوئے۔ اکتوبر میں ہلاک ہونے والوں میں وہ پانچ افراد بھی شامل ہیں جو پانچ ستمبر کو دو مذہبی گروپوں میں تصادم کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔
موثر اقدامات کے سبب عروس البلاد کراچی کی روشنیاں ایک بار پھر بحال ہونے لگی ہیں ، شہریوں میں پائی جانے والی عدم تحفظ کی کیفیت بتدریج کم ہو رہی ہے اور رات گئے فوڈ اسٹریٹس پر کھانوں اور تفریح گاہوں پر ایک مرتبہ پر رش بڑھنے لگا ہے ۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں کے خوف سے سر شام بند ہونے والی مارکیٹس بھی رات گئے تک کھلی رہتی ہیں جہاں خریداربلا خوف و خطر خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔