منگل کو جموں میں بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدے داروں نے یہ دعویٰ کیا کہ مشرقی ضلع کشتواڑ کے ایک گھنے جنگل میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران حزب المجاہدین کا ایک اعلیٰ کمانڈر سجاد احمد عرف رضوان مارا گیا ہے۔
لیکن ہلاک شدہ شخص کی لاش جب مقامی لوگوں کو دکھائی گئی تو اُنھوں نے فوج کے دعوے پر شبہ ظاہر کیا، کیونکہ سجاد اُن کے لیے ایک مانوس شخص تھا، جب کہ مارا گیا شخص اُس سے مختلف تھا۔
بعد ازاں، پتا چلا کہ فوجیوں نے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر جِس جنگجو کو ہلاک کیا ہے وہ ضرور حزب المجاہدین سے وابستہ ایک اعلیٰ کمانڈر ہے لیکن رضوان نہیں بلکہ سبھاش کمار شان ہے، جو کشتواڑ ہی کے راجپال نامی گاؤں کا نوجوان تھا۔
بھارتی کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکریت پسندتنظیم حزب المجاہدین میں 2001ء میں شامل ہوا تھا اور آج کل اِس کا ڈپٹی ڈویژنل کمانڈر تھا۔
بھارتی فوج کے ایک ترجمان اور کشتواڑ کے ایک سپرانٹنڈینٹ آف پولیس بیم سنگھ ٹوٹی نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ جھڑپ کے دوران مارا گیا شخص حزب المجاہدین کا اعلیٰ کمانڈر سبھاش کمار شان ہی ہے۔
پولیس افسر نے کہا کہ وہ سات فوجداری مقدمات میں مفرور تھا جِن میں سے پانچ قتل کے کیس بھی شامل ہیں۔اِس کارروائی میں بھی وہ شامل تھا جِس کے دوران تین بھارتی فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔
تحریکِ مزاحمت کے دوران ایسی دو تین ہی مثالیں ملتی ہیں جب غیر مسلموں کو مسلمان عسکریت پسندوں کے دوش بدوش لڑتے ہوئے پایا گیا۔