پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے رواں ہفتے ایک نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' پر کشمیر اور مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے متعلق ایک بیان دیا جسے بعدازاں چینل نے سینسر کر دیا۔
اگرچہ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز کو سینسر کرنا یا اُنہیں نشر نہ ہونے دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کے وزیرِ خارجہ کا دیا گیا انٹرویو بھی آن لائن پلیٹ فارم سے غائب کر دیا گیا ہے اور ٹیلی ویژن پر دوبارہ نشر نہیں کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے بدھ کو نجی چینل 'اے آر وائی نیوز' کے پروگرام 'آف دی ریکارڈ' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر او آئی سی سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا تاخیر بلایا جائے گا۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ "اگر او آئی سی کونسل آف فارن منسٹرز (یعنی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ) کا اجلاس نہیں بلاسکتی تو وہ مجبوراً وزیرِ اعظم سے کہیں گے کہ وہ مسلم ممالک جو کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ ہیں اُن کا اجلاس بلا لیں۔ چاہے وہ او آئی سی کے فورم پر ہوں یا نہ ہوں۔"
شاہ محمود قریشی نے یہ غیر معمولی بیان بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر دیا تھا۔
شاہ محمود قریشی سے جب مذکورہ ٹاک شو کے میزبان کاشف عباسی نے کہا کہ آپ نے او آئی سی اور عرب ممالک کے رویے کے حوالے سے بہت بڑی بات کر دی ہے۔ تو جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑی اور غیر معمولی بات کہی ہے اور ان کے اس بیان پر دفترِ خارجہ میں بھی ہلچل پیدا ہو جائے گی۔
شاہ محمود قریشی کا انٹرویو سینسر
بعد ازاں 'اے آر وائی نیوز' نے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے وزیرِ خارجہ کے اس انٹرویو کو نہ صرف ہٹا دیا بلکہ پروگرام کو طے شدہ وقت پر نشرِ مکرر بھی نہیں کیا۔
وزیرِ خارجہ کا انٹرویو سینسر کرنے سے متعلق مؤقف جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے 'اے آر وائی' گروپ کے نائب صدر عماد یوسف اور پروگرام کے میزبان کاشف عباسی سے رابطہ بھی کیا تاہم اُن کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
دفترِ خارجہ کا مؤقف
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام کو او آئی سی سے بہت زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں جس کی وجہ تنظیم اور اس کے رکن ممالک سے ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔
وی او اے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان پاکستان کے عوام کے جذبات اور خواہشات کی ترجمانی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے گزشتہ سال کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد سے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
او آئی سی 57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل تنظیم ہے جس کا مقصد مسلم اُمہ کے باہمی مسائل کا حل اور آپس میں تعاون بڑھانا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'عرب ممالک نے مایوس کیا'
سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ مسلم ممالک کی تنظیم کا کشمیر پر فعال کردار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن او آئی سی کا کردار کہیں دکھائی نہیں دیا اور نہ کوئی آواز سنائی دی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر سینیٹ کے خصوصی اجلاس اور دفترِ خارجہ میں ملکی سیاسی قیادت کے ساتھ اجلاس میں او آئی سی کے کردار پر سوال اٹھائے گئے۔ لہذٰا وزیر خارجہ کا بیان اس کی عکاسی اور ردِ عمل ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بطور وزیرِ خارجہ پالیسی بیان نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ایک سیاست دان کی حیثیت سے انہوں نے عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "پاکستان کے حکام اور عوام مسئلہ کشمیر کے معاملے پر عرب ممالک سے بہت زیادہ مایوس ہیں کیوں کہ ہم نے عرب ممالک کے لیے بہت قربانیاں دیں اور کئی مواقع پر ان کا تحفظ کیا ہے۔"
شمشاد احمد خان کے بقول مسئلہ کشمیر پاکستان کی سالمیت سے جڑا ہے اور بھارتی وزیرِ اعظم آئے روز پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں بھی اپنے دوست ممالک کا تعاون درکار ہے۔
'کشمیر پر خاموش نہیں رہ سکتے'
پاکستان کی بار بار خواہش اور اصرار کے باوجود او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پاکستان اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
رواں برس فروری میں ملائیشیا میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ "اسلامی ممالک کی تنظیم تنازع کشمیر پر یک زبان نہیں ہے۔ ہم بٹے ہوئے ہیں اور ابھی تک کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہیں بلا سکے۔"
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے پر سعودی عرب کی جانب سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ سعودی وزیرِ خارجہ کے گزشتہ برس دسمبر میں دورۂ پاکستان کے دوران مسئلہ کشمیر کے ایجنڈے پر اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا تھا۔
اس اتفاقِ رائے کے باوجود او آئی سی کا اجلاس نہ ہونے پر شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان نے سعودی عرب کے تحفظات پر کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی اور اب پاکستانی عوام ریاض سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوست ممالک ساتھ دیں یا نہ دیں، پاکستان کشمیر کے معاملے پر اپنی حکمتِ عملی کو آگے بڑھائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ملائیشین وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کی سربراہی میں ’کوالالمپور سمٹ‘ ہوا تھا جس میں پاکستان نے دعوت قبول کرنے کے باوجود شرکت نہیں کی تھی۔
'نیا اسلامی اتحاد وقت کی ضرورت'
سابق سفارت کار شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ او آئی سی کی دنیا میں آواز اور کردار ختم ہو چکا ہے اور یہ صرف ایک ملک کی آواز بن کر رہ گیا ہے جو پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان ملکوں کے ایک نئے اتحاد کی اشد ضرورت ہے جو دفاعی، معاشی اور ٹیکنالوجی کا تعاون بھی کرسکیں اور دنیا میں اُن کی مؤثر آواز بھی ہو۔
شمشاد احمد خان کے بقول پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست ہے لہذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے ممالک پر مشتمل اتحاد تشکیل دیں جو واقعی مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ مسلم دنیا کے مسائل کے حوالے سے او آئی سی کے پلیٹ فارم پر بات چیت ہونا ہی اہم ہے۔ لیکن اگر اسلامی تعاون تنظیم مصلحت کا شکار ہے تو پاکستان مسئلۂ کشمیر پر خاموش نہیں رہ سکتا۔
سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر ساتھ کھڑے ہونے والے ممالک پر مشتمل اتحاد تشکیل دے کر مستقبل کا مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے تاکہ مظلوم کشمیریوں کی آواز بنا جا سکے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتا ہے جو کہ مسلم دنیا کے لیے ایک عجوبہ ہے، تو پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ پاکستان اپنی سالمیت کے دفاع کی طاقت اور ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن جن دوست ممالک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہم نے بہت کچھ کیا وہ آج اسلام آباد کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں؟