امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے منگل کے روز شبہ کرنے والے قانون سازوں کو بتایا کہ اگر امریکہ ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی ثالثی میں طےہونے والے معاہدے کو مسترد کرتا ہے، تو ایران کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
کیری نے ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کو بتایا کہ، ’دنیا کے لیے یہ ایک اچھا سمجھوتا ہے، امریکہ کے لیے اچھا سمجھوتا ہے، ہمارے اتحادی اور دوستوں کے لیے ایک اچھا سمجھوتا ہے‘۔
امریکی کانگریس کے پاس سمجھوتے کا جائزہ لینے کے لیے 60 دِن کی مدت ہے، جس معاہدے کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سے مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے کیا ہے۔
کیری نے رپپبلیکن پارٹی کی اکثریت والی کانگریس سے اس معاہدے کی منظوری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ اِسے مسترد کرتا ہے تو ایران کے جوہری پروگرام پر کنٹرول کرنے کا ایک ’بہترین موقع ہاتھ سے نکل جائے گا‘۔
ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام پر قدغنیں اور بین الاقوامی نگرانی کے بدلے اقوام متحدہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے عائد کردہ تعزیرات اٹھائے جانے پر تیار ہوا، جن پابندیوں کے نتیجے میں اُس کی معیشت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
تاہم، کیری نے متنبہ کیا کہ اگر ہم (سمجھوتے سے) الگ ہوجاتے ہیں، تو ہم اکیلے رہ جائیں گے‘، کیونکہ بین الاقوامی تعزیرات اٹھائی جائیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’اگر سمجھوتے کی منظوری نہیں دی جاتی، تو پھر ایران کے جوہری پروگرام کی نہ تو نگرانی ہوگی، نہ تعزیرات ہوں گی، نہ ہی پابندیاں ہوں گی۔‘
سماعت کے آغاز پر، کانگریس کے رُکن ایڈ روئس، جن کا رپیبلیکن پارٹی سے تعلق ہے، اور امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ ہیں، سمجھوتے کے بارے میں اپنے شک و شبہے کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے سوال کیا، ’کیا ایران اب قابلِ اعتماد ہوگیا ہے؟‘
بقول اُن کے، ’اگر سمجھوتے کی منظوری دی جاتی ہے، تو ایران کے بین الاقوامی قد کاٹھ میں اضافہ ہوجائے گا‘۔
روئس نے کہا کہ،’ہم صدر (براک) اوباما کی کوشش کی داد دیتے ہیں، جنھوں نے تاریخ کی بیکار ترین معائنے کی شقیں منوائیں‘۔ لیکن، بقول اُن کے،معاملہ ’ابھی ادھورا ہے‘۔
ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رکن، الیوٹ اینگل نے کہا کہ سمجھوتے میں کئی ایک معاملات ہیں، جو بقول اُن کے، ’تکلیف دہ‘ ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ آج سے 15 برس بعد، ایران اس سمجھوتے کا پابند نہیں رہے گا، جس دلیل کو کیری نے مسترد کیا۔
سمجھوتے پر نظر ڈالنے کے لیے کانگریس کے پاس اب تقریباً سات ہفتے باقی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ ہفتے اس کی منظوری دی، جس کی جانب سے ایک نظام الاوقات سامنے آیا ہے جس کے تحت اس سال کے اواخر تک تعزیرات اٹھالی جائیں گی۔
روئس نے اِس اقدام کو ’الٹا چکر اور غلط‘ قرار دیا، کہ قبل اس کے کہ امریکی کانگریس اس کا جائزہ مکمل کرتی، اقوام متحدہ نے رائے شماری کے ذریعے سمجھوتے کی منظوری دے دی ہے۔