یوکرین جنگ کا بڑھتا دباؤ؛ 2025 میں روسی معیشت کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

فائل فوٹو۔

  • ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کی وجہ سے صدر ولادیمیر پوٹن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں۔
  • دفاعی اور قومی سیکیورٹی پر زائد اخراجات کی وجہ سے 2024 کے دوران روس میں مہنگائی کی شرح 9.5 فی صد رہی۔
  • گزشتہ برس اکتوبر میں روس کے مرکزی بینک نے شرحِ سود 21 فی صد تک بڑھا دی تھی۔
  • روس میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
  • افرادی قوت کی قلت بھی براہِ راست جنگ سے جڑی ہے کیوں کہ ہزاروں روسی فوج میں بھرتی ہوگئے ہیں یا ان کی ایک بڑی تعداد جنگ کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جارہی ہے۔
  • روس کی کرنسی روبل کی قدر میں مارچ 2022 کے بعد سے مسلسل کمی آ رہی ہے۔

ویب ڈیسک یوکرین جنگ کے تین برسوں میں مغربی ممالک کی عائد کی گئی پابندیوں کے باوجود روس کی معیشت بڑی حد تک متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن ایک ایسے وقت میں جب جنگ چوتھے سال میں داخل ہونے والی ہے روس کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق 2025 روس کے لیے ایک 'طوفان' ثابت ہوگا جس میں کئی منفی محرکات ایک ساتھ اس کی معیشت کو متاثر کریں گے۔

یورپ کے مالیاتی ادارے 'استرا ایسٹ مینجمنٹ' سے تعلق رکھنے والے ماہر دمتری پولیوائی کا کہنا ہے کہ کئی برس کے استحکام کے بعد 2025 روس کے لیے مایوس کُن ثابت ہوسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کی وجہ سے صدر ولادیمیر پوٹن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے بعد کہا تھا کہ یوکرین میں جنگ "روس کو تباہ کر رہی ہے" اور اپنے ایک اور حالیہ بیان میں وہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پوٹن نے جنگ ختم کرنے کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

روس کے مرکزی بینک کے سابق ڈپٹی گورنر اولیگ ویگن کا کہنا ہے کہ معاشی تحفظات کی وجہ سے روس یوکرین تنازع کے سفارتی حل میں دل چسپی رکھتا ہے۔

روس کے لیے رواں برس کیا بڑے معاشی چیلنجز ہوسکتے ہیں؟ ان میں سے چند اہم ترین یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔

مہنگائی اور افراطِ زر

دفاعی اور قومی سیکیورٹی پر زائد اخراجات کی وجہ سے 2024 کے دوران روس میں مہنگائی کی شرح 9.5 فی صد رہی۔ آئندہ برس روس کے مجموعی بجٹ کا 41 فی صد دفاع اور سیکیورٹی کی مد میں خرچ ہوگا جس میں قرضوں پر سبسڈی اور افرادی قوت کی قلت کی وجہ سے بڑھتی ہوئی اجرتوں پر کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔

گزشتہ 15 برسوں میں صرف دو مواقع ایسے آئے ہیں جب روس میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچی ہے۔ حالیہ تاریخ میں یہ موقع 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے سال کے دوران آیا۔

اس سے قبل کرائمیا کے الحاق کے بعد 15-2014 میں آنے والے معاشی بحران میں روس میں افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

SEE ALSO: روس پر یوکرین جنگ کی بنا پر مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، ٹرمپ

روس میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ مکھن، انڈے اور سبزیوں جیسی بنیادی غذائی اشیا کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔

روس کا مرکزی بینک افراطِ زر کے مقابلے کے لیے مسلسل شرحِ سود میں اضافہ کر رہا ہے۔

صدر پوٹن کہہ چکے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی سے مقابلے کا واحد حل نہیں اور حکومت کو کم قیمت پر اشیا کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات یقینی بنانا ہوں گے۔

بلند شرحِ سود

گزشتہ برس اکتوبر میں روس کے مرکزی بینک نے شرحِ سود 21 فی صد تک بڑھا دی تھی۔ یہ شرح پوٹن کے اقتدار کے ان ابتدائی برسوں کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچی ہے جب روس سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سیاسی و معاشی بحرانوں کا شکار تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ زیادہ شرح سود سے معیشت کے سویلین شعبے متاثر ہورہے ہیں جب کہ بھاری سبسڈیز حاصل کرنے والا دفاعی شعبہ ان اثرات سے محفوظ ہے۔

روس کے ممتاز بزنس لیڈرز کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پیداواری لاگت زیادہ اور منافع کی شرح کم ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔

زیادہ شرح سود کی وجہ سے قرض کے حصول میں کمی سے کارپوریٹ اور جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار شدید دباؤ کا شکار ہے۔ حکومت نے مکانات کی خریداری کے لیے دیے جانے والے قرض پر سبسڈی بھی ختم کردی ہے۔

SEE ALSO: روس اور چین کی صدر ٹرمپ سے تعلقات پر طویل مشاورت

معاشی سست روی

روس کی حکومت نے 2025 میں معاشی ترقی کی شرح نمو 2.5 فی صد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو 2024 میں چار فی صد تھی۔ جب کہ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق روس کی شرحِ ترقی رواں برس 1.4 فی صد رہنے کا امکان ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی شرحِ ترقی میں کمی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی معیشت سکڑ رہی ہے اور اس میں پیداوار اور خدمات کے شعبے میں سرگرمیاں کم ہو رہی ہیں۔

اس شرح میں کمی سے بے روزگاری، آمدن، پیداوار اور صارفین کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوتی ہے جو معاشی سست روی کے اثرات تصور ہوتے ہیں۔

روس میں حکومت کے حامی معاشی تھنک ٹینکس بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ 2023 کے بعد سے دفاعی سیکٹر کے علاوہ روس کا صںعتی شعبہ مسلسل بڑھتے ہوئے افراطِ زر کی وجہ سے جمود کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اس صورتِ حال میں افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے۔ لیبر کی قلت کی وجہ سے اجرتوں میں ہونے والا اضافہ صنعتوں پر بڑھتے معاشی دباؤ اور لاگت بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔

افرادی قوت کی قلت بھی براہِ راست جنگ سے جڑی ہے کیوں کہ ہزاروں روسی فوج میں بھرتی ہوگئے ہیں یا ان کی ایک بڑی تعداد جنگ کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جا رہی ہے جس کی وجہ سے صںعتوں کے لیے درکار لیبر کافی تعداد میں دست یاب نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رفتار اور شرح سے دفاعی شعبے کو سرمایہ کاری اور سبسڈیز فراہم کی جاتی رہیں تو اس سے معاشی عدم توازن پیدا ہوگا جس کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہو گی اور کئی بڑی صنعتیں دیوالیہ ہو جائیں گی۔

SEE ALSO: روسی تیل پر سخت امریکی پابندیاں کسی امن معاہدے میں مدد دے سکیں گی؟

بجٹ خسارہ

کسی بھی ملک کے اخراجات جب اس کی آمدن سے بڑھ جائیں تو وہ بجٹ خسارے کا شکار ہوجاتا ہے۔

گزشتہ برس روس میں بجٹ خسارہ مجموعی پیداوار کے 1.7 فی صد تک پہنچ چکا تھا۔ روس میں بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی مدد فراہم کرنے والا ادارہ نیشنل ویلتھ فنڈ ہے۔ جنگ کے تین برسوں کے دوران اس کے دو تہائی فنڈز خرچ ہوچکے ہیں۔

روس کی حکومت نے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس بڑھائے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے روس کے تیل اور گیس کے شعبے پر عائد ہونے والی پابندیوں کی وجہ سے آمدن میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روس اپنے فوجی اخراجات میں کمی نہیں لاتا تو اسے ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔

کمزور کرنسی

روس کی کرنسی روبل کی قدر میں مارچ 2022 کے بعد سے مسلسل کمی آ رہی ہے اور رواں ماہ کی ابتدا میں بھی مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے یہ مزید کمزور ہوئی ہے۔

حالیہ پابندیوں کی وجہ سے روس کی بین الاقوامی ٹرانزیکشنز میں رکاوٹیں آئی ہیں اور غیر ملکی زرِ مبادلہ آنے کی رفتار بھی مزید سست ہوجائے گی۔

SEE ALSO: شمالی کوریا کے 'خود کُش' فوجی یوکرین کے لیے نیا چیلنج

اگرچہ کم زور کرنسی کی وجہ سے حکومت کو بجٹ خسارہ قابو کرنے میں مدد مل رہی ہے لیکن کچھ عرصے میں یہ ایندھن اور درآمداتی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔

روس میں کرنسی مارکیٹ بھی پابندیوں کے زیرِ اثر ہے اور اس میں جس غیر ملکی کرنسی کی سب سے زیادہ خرید و فروخت ہوتی ہے وہ چینی یوآن ہے جب کہ ڈالر اور یورو کی خریدوفروخت ایکسچینج سے باہر کرنسی کے کھلے کاروبار کی جانب منتقل ہوگئی ہے۔

اس خبر کے لیے تفصیلات ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔