برطانوی بادشاہ کی تاج پوشی میں ’کوہِ نور‘ کیوں شامل نہیں ہوگا؟

فائل۔

برطانوی شاہی محل کے مطابق رواں برس بادشاہ چارلس اور ان کی اہلیہ کی تاج پوشی کی تقریب میں ملکہ کمیلا جو تاج پہنیں گی اس میں کوہِ نور نہیں ہوگا۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'بی بی سی' کے مطابق چھ مئی کو ہونے والی تاج پوشی میں کمیلا کے لیے ملکہ میری کا تاج لایا جائے گا جو شاہ جارج پنجم کی اہلیہ اور 1910 سے 1936 تک ان کی ملکہ رہی تھیں۔

شاہی محل کے مطابق ملکہ میری کا یہ تاج ٹاور آف لندن سے نکال کر اسے ملکہ کمیلا کے سر کے سائز کے مطابق بنانے کے لیے تاج میں تبدیلی کی جائے گی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب پہلے سے موجود تاج کو دوبارہ تاج پوشی میں پیش کیا جائے گا۔

کوہِ نور سے متعلق بکنگھم پیلس کے اعلان نے ایک بار پھر اس ہیرے کی تاریخ اور اس سے جڑے تنازعات کو موضوعِ بحث بنا دیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ برطانوی شاہی محل کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاج پوشی کی تقریب سے کوہِ نور کو الگ کر کے شاہی خاندان نے نوآبادیاتی تاریخ سے متعلق ایک تنازع سے بھی خود کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بھارت میں بعض حلقوں نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اگر تاج پوشی میں کوہِ نور بھی شامل کیا جاتا تو یہ برطانوی نوآبادیات کی جابرانہ تاریخ کی یاددہانی کا باعث بن سکتا تھا۔

ہندوستان میں برطانوی تجارتی کمپنی نے 1849 میں سکھوں کے ساتھ ہونے والی دوسری جنگ کے بعد یہ ہیرا حاصل کیا تھا۔ کمپنی نے یہ ہیرا بعدازاں ملکہ وکٹوریہ کو پیش کردیا تھا جس کے بعد یہ برطانیہ کے شاہی خزانے کا حصہ بن گیا۔

SEE ALSO: بنگال کے سپہ سالار میر جعفر نے سراج الدولہ کا ساتھ کیوں چھوڑا؟

چمکتے ہیرے کی خونی تاریخ

دنیا میں آج بھی بادشاہوں کے تاج و تخت کی زینت بننے والے ایسے کئی ہیرے جواہرات موجود ہیں جو کئی سلطنتوں کے عروج و زوال کی نشانی کے طور پر باقی ہیں۔ لیکن کوہِ نور جیسی خوں ریزی اور جنگ و جدل سے جڑی تاریخ کسی اور قیمتی ہیرے کی نہیں۔

اس ہیرے کے بارے میں ہندوستان کی نوآبادیاتی تاریخ پر کئی کتابوں کے برطانوی مصنف اور تاریخ دان ولیم ڈلریمپل اور صحافی انتا آنند نے 2016 میں ایک کتاب لکھی تھی۔

’کوہ نور: دی اسٹوری آف ورلڈز موسٹ انفیمس ڈائمنڈ‘ کے عنوان سے اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح یہ ہیرا ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے قیام اور عروج و زوال کی کہانی بیان کرتا ہے۔

کتاب کی اشاعت کے موقع پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مورخ ولیم ڈلریمپل کا کہنا تھا کہ اس ہیرے کی کہانی ناقابلِ یقین حد تک خوں ریزی سے بھری ہے۔ یہ ہیرا جس کی بھی ملکیت میں رہا اس کا انجام بھیانک ہوا۔

مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ ہیرا مغل سلطنت کے دور میں ہندوستان میں دریافت ہوا تھا۔اس کے بارے میں بعض روایات یہ ہیں کہ یہ موجودہ بھارت کی ریاست آندھرا پردیش سے دریافت ہوا تھا۔

شہنشاہ بابر کا دعویٰ یہ تھا کہ اسے سلطان علاؤ الدین خلجی نے ہندوستانیوں سے لوٹا تھا۔ تاہم کوہِ نور طویل عرصے تک مغل حکمرانوں کے پاس رہا۔

SEE ALSO: دنیا میں کہاں کہاں بادشاہت سلامت ہے؟

اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت کا زوال شروع ہوا اور 1750 میں جب نادر شاہ نے مغلوں کے دارالحکومت پر حملہ کیا تو وہ تختِ طاؤس بھی اپنےساتھ لے گیا۔ یہ مغلوں کا انتہائی قیمتی تخت تھا اور کوہِ نور بھی اس تخت میں جڑا ہوا تھا۔

ولیم ڈلریمپل کا کہنا ہے کہ تختِ طاؤس دنیا کا سب سے قیمتی تخت تھا۔ اس میں جڑے ہیرے جواہرات کی مجموعی قیمت تاج محل پر آنے والی لاگت سے چار گنا زیادہ تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل سلطنت کے طول و عرض سے تمام قیمتی اور بہترین جواہرات جمع کرکے اس تخت میں جڑ دیے گئے تھے۔

مورخین کے مطابق مغل عہد میں یہ ہیرا اتنا معروف نہیں تھا۔مغل عام طور پر مختلف رنگوں کے یاقوت، عقیق اور شفاف و چمک دار جواہرات پسند کرتے تھے۔

ولیم ڈلریمپل کا کہنا ہے کوہِ نور کے بارے میں برطانیہ نے خود واویلا کرکے دنیا کو بتایا ورنہ اس سے قبل لوگ اس کے نام سے واقف نہیں تھے۔

اس عالم گیر شہرت کے بعد کوہِ نور برطانیہ کے لیے سفارتی سطح پر دردِ سر بن گیا۔ 1947 کے بھارت نے کئی مرتبہ اس ہیرے کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور سفارتی سطح پر یہ معاملہ اٹھاتا رہا ہے۔اس کےعلاوہ کوہِ نور کے دعوے داروں میں پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ افغان طالبان بھی شامل رہے ہیں۔

کون کون دعوے دار؟

رنجیت سنگھ کی حکومت جن علاقوں میں شامل تھی ان کا بڑا حصہ پاکستان میں شامل ہوگیا۔اس لیے پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ اگر یہ ہیرا پاکستان کے حوالے کیا جاتا ہے تو یہ نو آبادیات کے خاتمے کا عملی مظاہرہ ہوگا۔

SEE ALSO: جب پاکستان کی عدالت میں ملکہ الزبتھ کو سربراہِ مملکت ثابت کیا گیا

سن 2000 میں افغان طالبان کا کہنا تھا کہ یہ ہیرا افغانستان سے ہندوستان گیا اور رنجیت سنگھ کی ملکیت بنا اس لیے اس کے حقیقی حق دار افغان ہیں۔

ایران کے مطابق یہ ہیرا فارس سے تعلق رکھنے والے فاتح نادر شاہ نے دہلی فتح کرکے حاصل کیا تھا اور وہی اس کا اصل حق دار ہے۔

بھارت کی حکومت کی جانب سے بارہا اس کی ملکیت کے دعوے تو سامنے آتے رہے ہیں تاہم 2016 میں بھارت کے سولسٹر جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سکھ سلطنت نے یہ ہیرا رضاکارانہ طور پر انگریزوں کے حوالے کیا تھا اس لیے اسے لوٹ کا مال قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس سے قبل 2010 میں برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے نوآبادیاتی دور کی یادگار ہونے کی وجہ سے کوہِ نور پر بھارت اور دیگر ممالک کے دعوؤں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ اگر اس طرح تاریخی اشیا واپس کی جانے لگیں تو ایک دن برٹش میوزیم خالی ہو جائے گا۔

جب ہیرا پیپر ویٹ کے طور پر استعمال ہوا

ولیم ڈلریمپل کے مطابق مغل سلطنت کے زوال کے بعد ایک صدی تک کوہِ نور ہیرا پیپر ویٹ کے طور پر ایک مسلم مذہبی عالم کے زیرِ استعمال رہا۔ اس کے بعد یہ ہیرا سکھ سلطنت کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے اسے راجہ رنجیت سنگھ کے جنگی لباس میں جڑ دیا۔

راجہ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا احمد شاہ درانی کے پوتے شاہ شجاع درانی سے حاصل کیا تھا جس نے تاج و تخت کی کشمکش میں سکھ فرماں روا کی پناہ حاصل کی تھی۔

SEE ALSO: ملکۂ برطانیہ کی دو بار سال گرہ کیوں ہوتی ہے؟

سن 1839 میں راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں اور انگریزوں میں پھر جنگ چھڑ گئی۔ جنگ بندی کے لیے رنجیت سنگھ کے دس سالہ جانشین اور سکھ سلطنت کے آخری راجہ دلیپ سنگھ نے معاہدۂ لاہور کیا تو کوہِ نور بھی سلطنتِ برطانیہ کے حوالے کردیا۔

اس کے بعد یہ ہیرا ہندوستان سے برطانیہ روانہ کردیا گیا جہاں 1851 میں اسے نمائش کے لیے پیش کیا گیا اور دنیا بھر میں اس کی افسانوی شہرت پھیل گئی۔

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر کوہِ نور زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپایا تھا اور اسے مزید چمک دار بنانے کے لیے برطانیہ میں اس کی مزید تراش خراش کی گئی تھی۔

سن 1901 میں یہ ملکہ وکٹوریہ کے لباس میں بروج کے طور پر شامل ہوا۔ بعدازاں 1937 میں اسے شاہی تاج میں جڑ دیا گیا تھا۔کوہِ نور والا یہ تاج سابق ملکہ الزبتھ کی والدہ الزبتھ اول کے لیے بنایا گیا تھا اور 2002 میں ان کی آخری رسومات کے موقع پر بھی منظرِ عام پر لایا گیا تھا۔

ملکہ الزبتھ اول کے لیے بنایا گیا کوہِ نور والا تاج۔

ولیم ڈلریمپل کا کہنا ہے کہ 1901 میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کے بعد کسی برطانوی فرماں روا نے کوہِ نور کو اپنے لباس یا تاج کا حصہ نہیں بنایا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس ہیرے کو بادشاہ یا حکمران ملکہ کے لیے 'منحوس' تصور کیا جاتا ہے۔

ڈلریمپل کا کہنا ہے کہ وکٹورین دور میں کوہِ نور ہندوستان کی فتح کی علامت تھا اور نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد آج تک یہ برصغیر کے لوگوں کے لیے ہندوستان میں برطانیہ کی 'لوٹ مار' کی نشانی ہے۔تاہم ان کے مطابق جب تک برطانیہ میں بادشاہت قائم ہے کوہِ نور ان ہی کی ملکیت رہے گا۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں’اے پی‘ اور’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔