شام کے شمال علاقے میں ترک فورسز سے جنگ کرنے والی کردوں کی حامی فوج 'سیرین ڈیمو کریٹک فورسز' (ایس ڈی ایف) نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ طے پائے جانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت وہ سرحدی شہر راس العین سے نکل گئے ہیں۔ جبکہ ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ انخلا ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق ایس ڈی ایف کے ترجمان کینو گیبریل کا اتوار کو کہنا ہے کہ راس العین میں ان کے مزید جنگجو نہیں ہیں۔
راس العین، شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر ہے۔ جہاں سے کرد جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ترکی فوجی کارروائی کر رہا ہے اور ترکی چاہتا ہے کہ سرحد کے 30 کلو میٹر اندر تک ایک ‘سیف زون’ بنایا جائے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان اور امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان جمعرات کے روز طے پائے جانے والے معاہدے کے تحت ترکی نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور ترک صدر کی طرف سے متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر ایس ڈی ایف منگل کو ختم ہونے والی ڈیڈ لائن سے پہلے ترک سرحد سے پیچھے نہیں ہٹتا تو ترکی دوبارہ سے فوجی کارروائی شروع کردے گا۔
کینو گیبریل کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اختتام ہفتہ پر ترکی کا کہنا تھا کہ ایس ڈی ایف کی درجنوں گاڑیاں راس العین سے نکل گئی ہیں۔ جسے ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں نے گھیر رکھا ہے۔
دوسری طرف ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں کے ترجمان میجر یوسف ہمود نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اب تک ایس ڈی ایف کے جنگجو راس العین سے مکمل طور پر نہیں نکلے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی فوج کے شام سے انخلا کے اعلان کے بعد ترکی نے شام پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
امریکی صدر کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ داعش کے خلاف لڑنے والے کردوں کے ساتھ یہ غداری کے مترادف ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ نئی حکمت عملی کے تحت مشرقی شام میں عراقی سرحد پر 200 امریکی فوجی تعینات رکھنا چاہتے ہیں۔ جس پر تبصرہ کرنے سے متعلق درخواست پر وائٹ ہاؤس کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔