'بھنڈیوں کا مزا تو تندور کی خستہ روٹی کے ساتھ ہی آتا ہے'

گرمیوں میں تھکے ہارے اسکول سے واپس لوٹتے تو گھر میں داخل ہوتے ہی جب کچن سے پیاز بھوننے کی خوشبو آتی تو اندازہ ہو جاتا کہ آج گھر میں بھنڈیاں پک رہی ہیں۔

بھنڈیاں تو مجھے ویسے ہی پسند تھیں۔ اور جب بھوک بھی شدت کی لگی ہو تو پھر انتظار مشکل ہو جاتا۔ لیکن گھر میں سب سے کم عمر فرد ہونے کے ناتے تندور سے گرما گرم روٹیاں لانے کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی ناتواں کندھوں پر ہوتی تھی کیوں کہ بھنڈیوں کے ساتھ تو تندور کی کڑکڑاتی روٹیوں کا ہی مزا آتا ہے۔

یوں اسکول بیگ رکھ کر کچھ تازہ دم ہوتے اور صافہ (رومال) اُٹھاتے تندور کی جانب بڑھ جاتے۔

تندور میں اکثر رش ہوتا۔ سو پسینے میں شرابور ہوتے لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی کہ کچھ دیر کی تو بات ہے۔ پھر ہم ہوں گے، تندور کی تازہ روٹیاں اور مزے دار بھنڈیاں۔

بعض گھروں میں تو بھنڈی کے ساتھ گھر کی بنی چپاتی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تندور کی روٹی ہی کھائی جاتی ہے۔

یوں گرمیوں کی دوپہر میں جب گھر کے تمام افراد ایک ساتھ مل بیٹھ کر گرما گرم روٹیوں کے ساتھ بھنڈیاں نوش کرتے۔ ساتھ چاٹی کی لسی اور رائتہ کھانے کا لطف دوبالا کر دیتا۔

آم تو میں بھول ہی گیا تھا۔ ان کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ہی پاکستان میں کئی گھروں میں گرمیوں کا لنچ مکمل ہوتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے ڈھنگ بدلے۔ لیکن بھنڈی اب بھی گرمیوں میں ہمارے گھر میں سب سے زیادہ پکنے والی سبزیوں میں شامل ہے۔

بیشتر افراد کی طرح ہمیں بھی والدہ کے ہاتھ کی بنی ہوئی بھنڈیاں ہی پسند ہیں۔ اُن سے پوچھا کہ کراری اور ذائقے دار بھنڈیاں بنانے کا کیا راز ہے؟ بولیں کہ کچھ خاص نہیں۔ بس پیاز، نمک، مرچ اور دیگر مصالحہ جات کو اچھی طرح پکانا تاکہ بھنڈیوں کی لیس ختم ہو جائے۔

اُن کے بقول سب سے پہلے پیاز اور بھنڈی کو اچھی طرح فرائی کیا جاتا ہے۔ بعد میں ٹماٹر، لہسن، نمک، مرچ، کٹا ہوا دھنیا، پسا ہوا دھنیا، چاٹ مصالحہ ڈال کر ہلکی آنچ میں پکایا جاتا ہے اور یوں کراری اور ذائقے دار بھنڈیاں تیار۔

چٹخارے اور تیز مرچ پسند کرنے والے گھروں میں بھنڈیوں میں اچار بھی شامل کر لیتے ہیں۔ یوں وہ اچاری بھنڈی کہلاتی ہے۔

کئی گھروں میں بھنڈی میں گوشت خاص طور پر بکرے کا گوشت شامل کر کے اس کا ذائقہ بڑھایا جاتا ہے۔

بھنڈی بنانے میں مختلف تجربات کیے جاتے ہیں۔ کچھ گھروں میں کاٹے بغیر پوری کی پوری بھنڈیوں کو پکا لیا جاتا ہے۔ کچھ زیادہ خشک پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ بھنڈیوں کے ساتھ زیادہ مصالحہ پسند کرتے ہیں۔

اُردو کے معروف شاعر انور مسعود یوں تو ہمیں بہت پسند ہیں۔ لیکن اُن کی ایک پنجابی نظم 'اج کی پکائیے' کے چوہدری صاحب جب اپنے ملازم رحمے سے مشورہ کرتے ہیں کہ آج کیا پکائیں تو وہ گوشت اور سبزیوں کے نام گنواتے ہوئے بھنڈیوں کا بھی نام لیتا ہے۔

لیکن ہمارا انور صاحب سے آج تک یہ گلہ رہا کہ آخر اُنہوں نے اپنی اس نظم میں بھنڈی پکانے کی تجویز کو رد کیوں کردیا تھا۔ حالاں کہ اُنہوں نے اپنی اسی نظم میں کہا تھا کہ

بھنڈیاں بنانا وی تے کوئی کوئی جاندا

رِنھناں پکانا وی تے کوئی کوئی جاندا

خیر بھنڈیوں سے متعلق اپنے تجربات سے آگاہ کرتے کرتے کھانے کا وقت قریب آ رہا ہے اور کراری بھنڈیوں کا خیال بھوک بڑھا رہا ہے۔ لہذٰا اجازت دیں کیوں کہ آج بھی گھر میں بھنڈیاں پکی ہیں۔