سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کو لاہور سے گرفتار کرکے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا ہے، جہاں سے اُنھیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ جیل میں طبی معائنے کے بعد مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کر دیا جائے گا۔ تاہم اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو ہی اڈیالہ جیل میں رکھا جائے گا اور دونوں کو جیل میں بی کلاس دی گئی ہے۔
اس سے قبل، متعلقہ جج نے سہالہ ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اطلاعات کے مطابق، اُنھیں قومی احتساب بیورو کے اہل کاروں نے گرفتار کیا؛ اور نجی پرواز کے ذریعے اپنی تحویل میں لاہور سے راولپنڈی منتقل کیا؛ جہاں بڑی تعداد میں ’اے ایس ایف‘ کے مستعد اہلکار تعینات تھے۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز کو قید کرنے کے ’باضابطہ وارنٹ‘ جاری کیے جا چکے ہیں۔
اِس سے قبل، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کمرشل پرواز کے ذریعے ابو ظہبی سے لاہور پہنچے تھے۔
لاہور میں اُن کا طیارہ 8.48 بجے شام علامہ اقبال ایئرپورٹ پر اترا۔
ہوائی اڈے پر امیگریشن پاسپوٹ کنٹرول کے مرحلے سے گزرنے کے بعد نیب اہلکاروں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کیا۔
اطلاعات کے مطابق، کیپٹن (ر) صفدر پہلے ہی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام کے حوالے کیے جانے کے بغیر، نواز شریف اس بات کے اہل نہیں ہوتے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ سابق وزیرِ اعظم اور ان کی صاحب زادی مریم نواز جمعے کی صبح لندن سے ابوظہبی پہنچے تھے; جہاں سے وہ متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایئرلائنز 'اتحاد ایئر ویز' کے ذریعے جمعے کی شام لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔
آج دوپہر دو بجے جمعے کی نماز کے بعد مسلم لیگ ن کی مرکزی ریلی شہبازشریف کی قیادت میں لوہاری گیٹ کی جامع مسجد کے سامنے سے نکلی۔ اس ریلی میں ن لیگ کے مرکزی قائدین حمزہ شہباز، جاوید ہاشمی، مشاہد حسین سید، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، طلال چوہدری، مریم اورنگزیب، مصدق کلیم شامل تھے۔
یہ ریلی لوہاری گیٹ سے لوئیر مال سے ہوتی ہوئی مال روڈ تک پہنچی جسے انتظامیہ نے کنٹینرز لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ ریلی کے شرکا ان کنٹینرز کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ اسی طرح مال روڈ سے متصل سڑکوں کو بھی انتظامیہ نے کنٹینرز سے بند کر دیا تھا جنہیں ریلی میں شامل افراد نے ہٹا دیا۔
آج صبح حکومت نے لاهور کے لگ بھگ پچاس مختلف جگہوں پر کنٹینرز لگا کر شہر کو بند کر دیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں داخلے کی بڑی شاہراہوں جیسے جی ٹی روڈ، موٹروے وغیرہ بھی کنٹینرز سے بند کر دیا گیا تھا۔
کنٹونمنٹ جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں ۔ یہ راستے ابھی تک بدستور بند ہیں۔
آج شہر میں میٹرو بس، سپیڈو بس اور تمام پبلک بس سروس بند رہی جو کہ تاحال بند ہے۔
حکومت نے اعلان کیا تھا کہ شہر میں آج 3 بجے سے 10 بجے تک موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس بند رہے گی مگر موبائل سروس 1 بجے ہی بند کر دی گئی تھی جو کہ رات گیارہ بج کر بیس منٹ پر آن ہوئی۔
آج شہر میں مسلم لیگ نواز نے شہر کے پانچ مختلف مقامات پر ریلیاں نکالی تھیں جنہیں مرکزی ریلی میں جا کر ملنا تھا مگر پولیس نے باقی ریلیوں کو مرکزی ریلی میں ملنے سے روکے رکھا۔
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے خلاف پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب بھی جاری رہا جس کے دوران پولیس نے لاہور اور اس کے نواحی اضلاع کے کئی شہروں اور قصبوں سے ن لیگ کے مزید درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
لیکن گرفتاریوں اور انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ دیے جانے کے باوجود سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ نواز شریف کے استقبال کے لیے ہر صورت ایئرپورٹ جائیں گے۔
لیگی رہنماؤں نے کارکنوں کو لاہور کی لوہاری مسجد جمع ہونے کی کال دی تھی جہاں سے پارٹی رہنماؤں کی قیادت میں مرکزی قافلہ نمازِ جمعہ کے بعد ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہونے والے تھے۔
مسلم لیگ نواز کی ایک ریلی ائیر پورٹ کی جانب نکلی تھی مگر جوہڑے پل پر اسے پولیس کی طرف سے شديد شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح شہر میں جن دیگر مقامات پر شیلنگ ہوئی ان میں ٹھوکر، بابو سابو انٹرچینج اور راوی ٹول پلازہ شامل ہیں۔ سب سے زیادہ شیلنگ ٹول پلازہ اور جوہڑے پل کے مقامات پر کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
آج مسلم لیگ نواز کی نکالی گئیں پانچوں ریلیوں میں پارٹی کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مرکزی ریلی میں عوام کی تعداد متاثر کن تھی۔
آج انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور سارا دن تمام ریلیوں کی فضائی نگرانی جاری رہی۔
اس سے قبل مریم نواز نے نواز شریف کا لندن سے ابوظہبی کی پرواز کے دوران ریکارڈ کیا جانے والا ایک ویڈیو پیغام اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کیا تھا جس میں سابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے اور ان سے جو ہوسکتا تھا، انہوں نے کردیا ہے۔
انہوں نے قوم سے اپنا ساتھ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی تقدیر بدلنے کا ایسا موقع بار بار نہیں آئے گا۔
شہر میں جمعے کی صبح سے ہی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری لاہور ایئرپورٹ بھی پہنچ گئی جہاں شام پاکستانی وقت کے مطابق سوا چھ بجے تک نواز شریف کی آمد متوقع ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کے ترجمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نیب نے نواز شریف اور مریم نواز کو لاہور ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرنے کے لیے 16 رکنی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے جس میں خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق نیب کی دو ٹیمیں لاہور ایئرپورٹ اور دو ٹیمیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر تعینات کردی گئی ہیں جبکہ دو ہیلی کاپٹرز بھی لاہور ایئرپورٹ پہنچا دیے گئے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کے بعد اسلام آباد لایا جائے گا جہاں سے انہیں اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کیپٹن ریٹائرڈ انوارالحق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے انتظامیہ نے پنجاب پولیس کی ہدایت پر 13 جولائی کو حفاظتی انتظامات کے باعث رنگ روڈ لاہور کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے جبکہ جمعے کے روز تمام سیاسی جماعتوں کو جلسے، جلوس اور ریلی نکالنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
چیف ٹریفک آفیسر لاہور (سی ٹی او) کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت علی ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریفک پلان پر ریلی سے قبل عمل درآمد کیا جائے گا اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے 200 سے زائد وارڈنز فرائض انجام دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسافروں کو ایئر پورٹ تک پہنچانے کے لیے شٹل سروس فراہم کی جائے گی اور ایئرپورٹ تک صرف مسافروں کو جانے کی ہی اجازت ہوگی۔
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے نواز شریف کی آمد کے موقع پر شہر کی کشیدہ صورتِ حال کے باعث میٹر بس سروس، اسپیڈو بس سروس سمیت دیگر سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ دن بھر بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے چھ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو دس سال قید اور جرمانہ، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 سال قید اور جرمانہ جبکہ داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو ایک برس قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
کیپٹن (ر) صفدر کو پہلے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیا جاچکا ہے۔