ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مسیحی اسسٹنٹ کمشنر پر وکلا کا تشدد؛ ’معاشرے میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے‘

فائل فوٹو

پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چند وکلا نے اسسٹنٹ کمشنر(اے سی) پیر محل عرفان مارٹن پر تشدد کرنے کے کیس میں ضمانتیں کرا لی ہیں۔ ملزمان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ملک کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مسیحی اسسٹنٹ کمشنر پر تشدد کے خلاف تحصیل میں مسیحی خاکروبوں نے ہڑتال کر دی ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پیر محل میں اسسٹنٹ کمشنر عرفان مارٹن پر تشدد کا واقعہ سات اکتوبر کو پیش آیا تھا۔

پولیس کے مطابق وکلا نے مبینہ معمولی تلخ کلامی پر اسسٹنٹ کمشنر عرفان مارٹن کو ان کے آفس میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا، جس سے عرفان مارٹن زخمی ہوئے۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر پیر محل کی پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس پی) وقار احمد پہنچے اور اپنی نگرانی میں اسسٹنٹ کمشنر کو سول اسپتال پیرمحل لے گئے، جہاں اُنہیں طبی امداد دی گئی۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور تشدد کا نشانہ بننے والے اسسٹنٹ کمشنر پیر محل عرفان مارٹن سے رابطہ کیا تاہم دونوں دستیاب نہیں ہو سکے۔

ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ محمد ارشد نے مذکورہ واقعے میں کسی بھی قسم کے مذہبی عنصر شامل ہونے کے اندیشے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ضلعے بھر میں امن وامان کی صورتِ حال معمول کے مطابق ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ نے بتایا کہ ایک سرکاری کارروائی کے سلسلے میں کچھ وکلا جمعہ سات اکتوبر کو اے سی کے دفتر آئے اور اُنہیں زبردستی کام کرنے کا کہا۔ اے سی کی جاب سے انکار پر تلخ کلامی ہوئی۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کہا کہنا تھا کہ وکلا کا گروپ دوبارہ ہفتہ کے دن آیا اور اے سی کے دفتر کو اندر سے بند کر کے اُن پر تشدد کیا، جہاں سے وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر دفتر سے باہر بھاگے۔ اِس دوران اُن کا سرکاری محافظ بیچ بچاو کراتا رہا البتہ وکلا کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث اکیلے اے سی پر حاوی رہے۔

SEE ALSO: منڈی بہاؤ الدین میں جج، وکلا اور انتظامیہ کا تنازع ہے کیا؟

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز پنجاب پولیس وقاص نذیر کہتے ہیں کہ واقعے کا مقدمہ تھانہ پیر محل میں درج کر لیا گیا ہے، جس میں 9 نامزد اور 10 نامعلوم وکلا کے خلاف دہشت گردی ایکٹ سمیت 8 دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔ مقدمے کی تفتیش جاری ہے البتہ ملزمان نے ضمانتیں کرا لی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر نے بتایا کہ تفتیش مکمل ہونے پر جو ذمہ دار ہوگا، اُس کی ضمانت منسوخ کرا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

مسیحی اسسٹنٹ کمشنر اور وکلا کے درمیان جھگڑے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ اِس کے پیچھے دو یا تین مبینہ وجوہات ہیں۔ حالیہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرکار ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زمین کا حصول کر رہی ہے۔ اُس سلسلے میں کچھ وکلاء اے سی کے دفتر میں پیش ہوئے، جس پر تلخ کلامی ہوئی اور بات تشدد تک جا پہنچی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مبینہ طور پر کچھ عرصہ قبل زائد قیمتیں وصول کرنے پر مذکورہ اسسٹنٹ کمشنر نے پیر محل میں ایک بڑی دوکان سربمہر کی تھی جو کہ ایک وکیل کے بھائی کی تھی۔ جس پر وکلا کا الزام تھا کہ دوکان کو غلط طور پر سربہر کیا گیا،جس پر وکلاء نے احتجاج کیا اور ہڑتال کی۔ اِسی طرح مبینہ طور پر کچھ عرصہ قبل اے سی کے دفتر میں کچھ وکلا کا اے سی سے کسی بات پر مبینہ جھگڑا ہوا۔ لیکن معاملہ رفعہ دفعہ ہو گیا۔

ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق واقعه میں کسی قسم کا کوئی مذہبی تعلق نہیں ہے۔ عرفان مارٹن کا تعلق مسیحی برادری سے ضرور ہے لیکن حالیہ واقعے میں اِس قسم کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

مذکورہ واقعے کے خلاف اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر پیر محل کے انجمنِ پٹواریان اور مسیحی خاکروبوں نے ہڑتال کی ہے۔

SEE ALSO: 'کیا پتا، وکیلوں نے ڈاکٹروں کو مارا یا ڈاکٹروں نے وکیلوں کو'

وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے پر وکلا کی مقامی بار ایسوسی ایشن پیر محل نے 11 اکتوبر کو ہڑتال کا اعلان کیا۔ صدر بار ایسوسی ایشن پیرمحل طالب حسین جعفری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وکلا کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ بے بنیاد ہے۔ جسے فوری طور پر خارج کیا جائے۔ ہڑتال کے باعث وکلا پیر محل کی مقامی عدالتوں میں کیسوں کی پیروی کے لیے پیش نہیں ہوں گے۔

وکلا کی جانب سے کسی بھی سرکاری افسر پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل بھی ملک کے مختلف شہروں میں وکلا کے مختلف نمائندوں کی جانب سے سرکاری افسروں اور معاشرے کے دیگر افراد پر تشدد کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جن پر مختلف وکلا تنظیمیں اپنے ساتھی وکلا کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کرتی رہتی ہیں۔

چند ماہ قبل مقامی وکلا تنظیموں کی جانب سے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور اور منڈی بہاالدین میں مختلف سرکاری افسروں پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ماہر قانون چوہدری مقصود بٹر مذکورہ واقعے کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے بات تشدد کی جانب نہیں جانی چاہیے۔ ایسی صورتِ حال سے کسی بھی طرح بچنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وکلا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ معاشرے سے برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بات صرف وکلا کی حد تک محدود نہیں ہے۔ ملک کے پارلیمان سمیت دیگر اداروں میں عدم برداشت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جو درست بات نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں کسی کو بھی تشدد کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا غلط ہے۔ جس کی مذمت کرنی چاہیے۔

چوہدری مقصود بٹر نے کہا کہ افسروں اور خاص طور پر انتظامیہ کے افسران کی اِس طرح سے تربیت ہونی چاہیے کہ انہوں نے ایسی صورتِ حال سے کیسے بچنا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر عرفان مارٹن کا تعلق پنجاب کے ضلع ساہیوال سے ہے۔