ویب ڈیسک۔ حفصہ یوسف کو گزشتہ ہفتے گریجویٹ ہونا تھا۔ 21 سالہ حفصہ نے انگریزی ادب میں ڈگری لینے کی تقریب میں شرکت کے لئے 200 پاؤنڈ (255 ڈالر) خرچ کیے تھے جس میں گریجویشن گاؤن کا کرایہ ، فوٹو گرافی اور اپنے خاندان کے لیے تقریب میں شرکت کے ٹکٹوں کے اخراجات شامل تھے ۔
لیکن ہوا یہ کہ اس اہم اور یادگار تقریب سے صرف دو ہفتے قبل لندن کی کوئین میری یونیورسٹی نے انہیں ایک ای میل بھیجی اور بتایا کہ وہ گریجویٹ نہیں ہو سکتیں کیونکہ تقریباً 140 یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے امتحانی پیپرز اور کورس ورک کی جانچ سے انکار کر دیا ہے اور یہ برطانیہ بھر میں تعلیمی عملے کی تنخواہوں اور کام کی صورتحال پر جاری تنازعہ کے نتیجے میں ہوا ہے۔
حفصہ یوسف کہتی ہیں کہ پرچوں اور کورس ورک کی جانچ نہ ہونے کے باعث ان کے پاس گریجویشن کے لیے درکار نمبر یا کریڈٹس نہیں تھے ۔ حفص نے کہا کہ ’’کیا ہم سب نے معمول کے مطابق ادائیگی صرف اسلئے کی کہ دو ہفتے پہلے ایک ای میل میں بتایا جائے کہ آپ (گریجوایشن کے لئے ) نہیں آ سکتے۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کے بیشتر افراد تو برطانیہ میں رہتے ہیں لیکن بیرونِ ملک سے آنے والے طلبا نے اپنے اہل خانہ کی شرکت کے لئے فضائی سفر کے اخراجات برداشت کیے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ یہ واقعی اعصاب شکن ہے ۔‘‘
حفصہ یوسف اور 2023 کی کلاس کو کالج میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا رہا ۔ وہ 2020 میں یونیورسٹی میں داخل ہوئیں جب کووڈ کی پابندیاں عروج پر تھیں۔ اس کے بعد یونیورسٹی کے عملے کی ہڑتالیں ہوئیں جو برطانیہ میں بہتر تنخواہ کا مطالبہ کرنے والے لاکھوں کارکنوں کی طرف سے باقاعدہ احتجاج کی ایک بڑی اور جاری لہر کا حصہ تھیں ۔
اب کیمبرج سے ایڈنبرا تک ہزاروں طلباء گریجوایٹ ہونے سے قاصر ہیں یا انہیں اپنے حتمی نمبر حاصل کرنے میں غیر معینہ تاخیر کاسامنا ہے کیونکہ تازہ ترین لیبر تنازعہ اپریل میں شروع ہوا تھا اورابھی تک اس کے حل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔
یہ قطعی طور پر واضح نہیں ہے کہ اس صورتحال سے کتنے طلباء متاثر ہوئے ہیں، لیکن یونیورسٹی اور کالج یونین کے انداز ے کے مطابق ایسے طلبا کی تعداد ہزاروں تک ہے جو اس موسم گرما میں فارغ التحصیل نہیں ہوں گے اور آئندہ تعلیمی سال میں بھی رکاوٹوں کا امکان ہے۔
تعلیمی شعبے کی یہ غیر یقینی صورتحال خاص طور پر بین الاقوامی طلباء کے لیے پریشان کن رہی ہےجنہیں برطانیہ میں رہنے کے لیے اضافی پیچیدگیوں اور اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو طالب علم روزگار کی تلاش کے لیےبرطانیہ میں رہنے کے خواہاں ہیں وہ اپنی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہی گریجویٹ ویزا کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
حٖصہ یوسف تدریسی شعبے میں اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں اور انہیں ستمبر میں شروع ہونے والے ایک تربیتی پروگرام میں جگہ مل گئی ہے۔ انہوں نے اپنی یونیورسٹی سے اپنے نتائج کی کاپی حاصل تو کی ہےلیکن وہ بدستور پریشان ہیں کہ انہیں درحقیقت درکار ڈگری ابھی تک نہیں ملی ہے۔
ان کی ہم جماعت سجا التمیمی نے کہا کہ انہوں نے اپنی گریجوایشن تقریب میں شرکت کی تھی لیکن ان کے پاس بھی حتمی نتائج نہیں ہیں۔ان کے مقالے کی انچارج پروفیسر مارکنگ بائیکاٹ میں شامل نہیں تھیں لیکن وہ اب بھی کچھ کورس ماڈیولز کے گریڈز کی منتظر ہیں۔
التمیمی نے بیشتر طالب علموں کی طرح زور دیا کہ ان کا غصہ اور مایوسی اپنے اساتذہ سے نہیں بلکہ یونیورسٹی کی سینئرقیادت سے ہے۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ کالج کی قیادت کے پاس رکاوٹوں کودور کرنےکا اختیار ہےلیکن انہوں نے تنازعہ کو ختم کرنے یا باقاعدہ احتجاج کے پس پردہ کار فرما وجوہات کو حل کرنے کے لیے بات چیت نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے ۔
التمیمی نے کہا کہ انہوں نے اپنی گریجوایشن تقریب میں احتجاجاً ایک چمکدار گلابی رنگ کی چادر پہنی تھی جس پر لکھا تھا ’’تنازعہ کو حل کرو۔‘‘ اور یہ ماہرین تعلیم کا بھی نعرہ ہے۔ کچھ اور مقامات پر فارغ التحصیل طلباء نے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیج پر یونیورسٹی قیادت سے ہاتھ ملانے سے انکارکیا یا ’’اپنےکارکنوں کو تنخواہ دو ‘‘ کا نعرہ لگا کر گریجوایشن کی تقریبات میں خلل ڈالا۔
یونیورسٹی اور کالج یونین نے طالب علموں کے ان مسائل کے لیے کالج کے مالکوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ یونین کا استدلال ہے کہ یونیورسٹیوں کے پاس عملے کی اجرت میں 10 فیصد اضافہ کرنے کے لیے کافی اضافی آمدنی ہےلیکن وہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے انکار کر رہے ہیں۔
" کوئین میری یونیورسٹی میں قانون کے ایک سینئر لیکچرار تنزیل چودھری نے کہا کہ ’’ میرے ساتھیوں کی تنخواہوں میں حقیقی معنوں میں کمی ہوئی ہے۔پچھلے 10 سالوں میں اس میں تقریباً 20 سے 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اور اگرچہ کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن یہ افراط زر کی شرح سے کافی نیچے ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں تعلیمی عملے کی اکثریت ضرورت سے زیادہ کام کرتی ہے اور طویل عرصے سے غیر محفوظ معاہدوں کو برداشت کرتی آئی ہے جو ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر چلتے ہیں ۔
چودھری نے تسلیم کیا کہ پیپرز اور کورسز کی جانچ کا بائیکاٹ ’’طالب علموں کے لئے واقعی سخت‘‘ رہا ہے۔
یونیورسٹیز اینڈ کالجز ایمپلائرز ایسوسی ایشن، یونینوں کے ساتھ گفت و شنید میں کالجوں کی نمائندگی کرتی ہےاور اس کا کہنا ہے کہ 2023 سے 2024 تک تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا - لیکن اس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کام کے بوجھ اور معاہدے کی اقسام جیسے مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا کہ بیشتر یونیورسٹیاں اس صنعتی کارروائی سے متاثر نہیں ہیں اور زیادہ متاثرہ اداروں میں ان طالب علموں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے جو گریجویشن کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
اس تلخ تنازعے مین پھنسے طالب علموں کو واقعتاًالجھن اور پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ان کی گریجو ایشن میں تاخیر ہو رہی ہے اور انہیں ڈگری نہیں مل رہی۔
کوئین میری کی ایک اور طالبہ صوفیہ شاہد نے کہا کہ ’’ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم سے گریجویٹ ہونے کا حق ہی چھین لیا گیا ہے۔ خاص طور پر اتنی رقم ادا کرنے کے بعد اور کووڈاورلاک ڈاؤن اور آن لائن تدریس سے متاثر ہونے کے بعد یہ سب بہت برا لگتا ہے۔‘‘
کچھ طالب علم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر یونیورسٹوں کو قانونی طور پر چیلنج کیا جائے ۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )