لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے صوبے میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پاکستانی فوج کو لیز پر دینے سے روکتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق فوج کا کام اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی خطرات سے نمٹنا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عابد حسین چٹھہ نے جمعے کو دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ کے تحت نگران حکومت اس نوعیت کے بڑے فیصلے نہیں کر سکتی۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ نگران حکومت کسی بھی اراضی کو 30 برس تک لیز پر دینے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ عدالت نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کے نوٹی فکیشن پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
مذکورہ کیس کی سماعت 29 مارچ کو ہوئی تھی جس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
زمین فوج کے حوالے کیوں کی گئی؟
پنجاب کی نگران حکومت نے ایک معاہدے کے تحت رواں ماہ ساہیوال، خوشاب اور بھکر میں ایگری کلچر فارمنگ کے لیے پاکستانی فوج کو 45 ہزار سے زائد ایکڑ اراضی لیز پر دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
درخواست گزار وکیل احمد رافع عالم بتاتے ہیں کہ کیس فائل ہوتے ہی عدالت نے پہلی سماعت میں سٹے آرڈر جاری کر دیا ہے۔
اُنہوں نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ اور اس نوعیت کے دیگر کام حکومت کا کام ہے فوج ایسے منصوبوں پر کام نہیں کر سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد کے نیشنل پارک اور راول ڈیم کے کنارے نیوی کلب کی تعمیر پر واضح فیصلے دے چکی ہے۔
رافع کا کہنا تھا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ فوج کو اپنے دائرۂ کار سے باہر کسی کاروباری سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کے مارگلہ ہلز میں نیشنل پارک تجاوزات اور نیول گالف کورس کیس میں پاکستان آرمی کی آٹھ ہزار ایکڑ زمین کی ملکیت غیر قانونی قرار دینے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ افواجِ پاکستان کو اپنے دائرہ کار سے باہر کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔
فوج کی جانب سے وزارتِ دفاع کا مؤقف تھا کہ انہیں 1910میں یہ زمین گھوڑوں کی خوراک اور گھاس کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1962 کے آرڈیننس اور اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے بعد اس علاقے کی تمام زمین اسلام آباد کی انتظامیہ کو دی جا چکی ہے لہٰذا آٹھ ہزار ایکڑ زمین فوج کو نہیں دی جا سکتی۔
احمد رافع عالم کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے تحت پاکستان کی فوج نہ تو کھیتی باڑی کر سکی اور نہ ہی انہیں ایسا کرنا چاہیے فوج کو چاہیے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔
'زمین کی منتقلی کا فیصلہ خاموشی سے کیا گیا'
نقاد اور مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سمجھتی ہیں کہ زمین کی منتقلی کا فیصلہ بہت ہی خاموشی سے کیا گیا جس کا چیلنج ہونا ضروری تھا۔ ابھی تو عدالت نے صرف اسٹے آرڈر دیا ہے جس کا کیس چلے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوج کو چاہیے کہ ایسے معاملات میں نہ پڑے جس سے ادارے کا امیج خراب ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ فیصلے کی تحقیق ہونی چاہیے کہ پنجاب کے چیف سیکریٹری کو کس نے یہ حکم دیا۔
زمین کب اور کیسے فوج کے حوالے ہوئی؟
زرعی اراضی کو فوج کے حوالے کرنے سے متعلق عدالت میں جمع کرائے گئے دستیاب دستاویز کے مطابق ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے پنجاب کے چیف سیکریٹری اور بورڈ آف ریونیو کو خطوط لکھے۔
زمین کی حوالگی کے سلسلے میں ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے محکمہ آبپاشی، محکمہ جنگلات، محکمہ لائیو اسٹاک اور سیکریٹری زراعت کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ضلع بھکر کی تحصیل کلور کوٹ، منکیرہ میں 42 ہزار سے زائد ایکڑ زمین حوالے کرنے کا کہا گیا۔
اسی طرح خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں 1800 ایکڑ اور ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں 725 ایکڑ اراضی حوالے کرنے کے لیے بھی خطوط لکھے تھے۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت نے 20 فروری کے نوٹی فکیشن اور آٹھ مارچ کے جوائنٹ وینچر معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ منصوبوں کے لیے سرکاری زمینوں کو پاک فوج کے حوالے کیا جائے۔
ذرائع محکمہ بورڈ آف ریونیو کے مطابق مذکورہ معاہدے میں پنجاب حکومت پاکستان کی فوج کو زمین فراہم کرے گی جب کہ فوج اپنے وسائل سے منصوبے کا انتظام اپنے پاس رکھے گی۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبہ میں نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے گا۔ اِس سلسلے میں نجی شعبہ کھاد اور معاونت فراہم کرے گا۔ ذرائع محکمہ بورڈ آف ریونیو نے مزید بتایا کہ جوائنٹ وینچر پر پنجاب حکومت، فوج، اور کارپوریٹ فارمنگ پر کام کرنے والی نجی فرمز کے درمیان دستخط کیے گئے ہیں۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق اراضی کی کاشت سے حاصل ہونے والی 40 فی صد آمدن حکومت پنجاب کے پاس 20 فی صد زراعت کے شعبے میں تحقیق جب کہ بقیہ آمدن دیگر شراکت داروں کو دی جائے گی۔
زمین کی منتقلی پر عدالتی اسٹے آرڈر پر پاکستانی فوج کا تاحال کوئی مؤْقف سامنے نہیں آیا۔ تاہم اس نوعیت کے معاملات میں فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ملکی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرتی ہے۔