ہر جمعے کو ہزاروں لوگ بِن غازی میں عدالت کی عمارت میں حزبِ ِ اختلاف کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے جمع ہوتے ہیں۔
خطبے میں قذافی حکومت کی زیادتیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ اگرچہ فوجی اعتبار سے حالات تعطل کا شکار ہیں پھر بھی حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے 41 سالہ ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے لیے ایک عبوری کونسل قائم کر دی ہے۔ کونسل کے ترجمان مصطفی گہریانی کہتے ہیں کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ ’’ہم نئے سرے سے ایک ملک کی تعمیر کر رہےہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ ملک کا یہ مشرقی حصہ پہلے کے مقابلے میں اور ان علاقوں کے مقابلے میں جن پر کرنل قذافی کی حکومت ہے کہیں بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے ‘‘۔
اس کونسل کے 31 ارکان ہیں جو لیبیا کے تمام اضلاع کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف دس کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ بقیہ نام سیکورٹی کی خاطر خفیہ رکھے گئے ہیں۔ یوں بھی قذافی کی فوجیں اب بھی وسطی اورمغربی لیبیا کے بڑے حصوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہیں۔
کونسل ایک عبوری مجلس قانون ساز کی طرح کام کرتی ہے اور ایک کرائسس مینیجمینٹ ٹیم کے کام کی نگرانی کرتی ہے جو حزب اختلاف کے زیر کنٹرول علاقوں کا انتظام چلاتی ہے۔ اس کی سیاسی مشاورتی کمیٹی کے ایک رکن پروفیسر زاہی موغربی (Zahi Mogherbi) کہتے ہیں کہ ماہرین کا ایک پینل ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔ ’’ہمیں اپنے ملک کو صحیح معنوں میں جمہوری، آئینی اور سول سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا بڑا اچھا موقع ملا ہے جس میں حکومت کی تمام شاخیں قانون کے مطابق حکومت کریں گی اور سب لوگوں کے سیاسی اور سول حقوق کی ضمانت دی جائے گی‘‘۔
لیبیا کے امور کے ایک مصری ماہر قاہرہ کے الاحرم سینیٹر فاراسٹراٹیجک سٹیڈیز کے ذکی اکل کہتے ہیں کہ اب تک تو عبوری کونسل ان مقاصد کو بخوبی پورا کر رہی ہے۔’’ لیبیا کے اندر ایک سوشل جمہوری مملکت کا سا نقشہ ابھر رہا ہے۔ اگر آپ نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کے منصوبوں کو دیکھیں تو وہ اس جمہوریہ سسٹم سے بہت مختلف ہیں جو قذافی نے ایجاد کیا تھا۔ اور کونسل میں وہ لوگ شامل ہیں جو کبھی قذافی کی حکومت کا حصہ تھے لیکن وہ ان طریقوں کے بہت خلاف تھے جن کے تحت لیبیا پر حکومت کی جاتی تھی‘‘۔
بعض مبصرین کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسلامی انتہا پسند لیبیا کے انقلاب کو ہائی جیک نہ کر لیں۔ لیکن اسلامی قانون کے پروفیسر اوسامہ ال ثلادی کہتےہیں کہ لیبیا کا معاشرہ انتہا پسند نہیں ہے۔’’ لیبیا آزادی کا متلاشی ہے ۔ لیبیا دنیا پر ثابت کر دے گا کہ اسلام کے بارے میں اس کا اعتدال پسند رویہ بہت مثبت ہے‘‘۔
پروفیسر زہائی کہتے ہیں کہ لیبیا کے لوگ ہر ایسے سسٹم کو مسترد کردیں گے جس میں سماجی اداروں کو جس میں ایک فرد کی حکمرانی کو سہارا دینے کے لیے سماجی اداروں کو نقصان پہنچا یا جاتا ہے۔’’اس وقت مجھے جس نکتے پر اتفاق رائے نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کسی آمرانہ حکومت کے تحت رہنے کو تیار نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو، وہ چاہے اسلامی ہو، لبرل ہو یا کمیونسٹ ہو‘‘۔
مصطفی گہریانی کہتے ہیں کہ لوگ ایسا لیبیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر ایک کومناسب رہائشی سہولتوں،علاج معالجے کے نظام، تعلیم اوراچھی غذا تک رسائی حاصل ہو۔ ’’میں لیبیا کے مستقبل کے بارے میں بہت پُر امید ہوں۔ میرا خیال ہے کہ لیبیا ایک جدید مملکت بن سکتا ہے۔ یہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ جمہوریت سے لوگوں کو کیا فائدے پہنچ سکتے ہیں اور لیبیا کے لوگوں کے لیے جمہوریت کتنی مفید ہے‘‘۔
بزنس مین محمد ال سیخی (Mohamed El-Sheki) اپنے بیٹے کے ساتھ نمازِ جمعہ کے لیے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے امید ہے کہ لیبیا میں قانون کی حکمرانی ہو گی ہر قسم کی آزادی ہو گی اور سیکورٹی ہو گی جو سب سے اہم چیز ہے۔
لیبیا کے لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے سامنے جو سڑک ہے وہ بہت کٹھن ہے اور اس میں ہر قسم کے خطرات ہیں لیکن انہیں پکا یقین ہے کہ وہ ایک نئی اور جدید مملکت کی تعمیر میں کامیاب ہو جائیں گے۔