لیبیا میں لڑائی میں ملوث دھڑوں کےجنیوا میں جاری امن مذاکرات بغیر کسی حل تک پہنچے اختتام پذیر ہوگئے ہیں۔ تاہم، اقوام متحدہ کے ایلچی نے کہا ہے کہ تین ہفتوں کے اندراندر اتحادی حکومت تشکیل دینے کے لیے معاہدہ طے کیا جانا ہے۔
ایسے میں جب بات چیت ناکام رہی، اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برنارڈینو لیون نے کہا ہے کہ دونوں گروپ، جن میں سے ہر ایک لیبیا کے جنگ زدہ ملک کے کسی نہ کسی علاقے پر کنٹرول کا دعوے دار ہے، مذاکراتی عمل میں سکیورٹی سے متعلق امور میں ایسی تیز پیش رفت کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جو سیاسی محاذ پر آگے بڑھنے سے مماثلت رکھتا ہو۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ دونوں دھڑوں نے تین ہفتوں کے اندر مذاکرات کو مکمل کرنے کے عزم کی نشاندہی کی ہے۔
لیبیا دو حکومتوں میں بٹا ہوا ہے، جن کے مسلح فوجی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔
بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت تبروک کے مشرقی شہر میں قائم ہے، جب کہ مذہب نواز حکومت دارالحکومت، طرابلس میں حکمراں ہے۔
تبروک میں قائم حکومت کے وزیر اعظم نے منگل کے روز کہا ہے کہ اگر عوام یہ چاہتا ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں، تو وہ ایسا کرنے پر تیار ہیں۔
وزیر اعظم عبداللہ الثانی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ناظرین کی جانب سے کی گئی سوالوں کی بوچھاڑ کا سامنا کیا، جن میں حکومت کی طرف سے خدمات کی عدم دستیابی کا الزام بھی شامل تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اتوار کے روز سے ہی دستبردار ہونے کو تیار ہیں، اگر عوام یہی چاہتے ہیں۔
ایک سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ مسٹر ثانی کا یہ بیان سرکاری طور پر باضابطہ مستعفی ہوجانے کے مترادف نہیں۔
اقوام متحدہ کے ایلچی نے کہا ہے کہ لڑائی میں ملوث تمام دھڑوں کے ارکان کی بات چیت میں شرکت ایک اچھی علامت ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ معاہدہ طے ہوسکتا ہے۔ اُنھوں نے سب پر زور دیا کہ ستمبر کے اوائل تک معاہدے کی توثیق کے لیے رائے شماری میں حصہ لیں۔