رپورٹر ڈائری؛ 'پولیس عمران خان کے گھر کے سامنے پہنچی پر گرفتاری نہ ہو سکی'

لاہور کے علاقے زمان پارک میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کی کوششوں کے دوران پولیس اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کے درمیان دو روز تک جاری رہنے والے تصادم کے بعد زندگی قدرے معمول پر آ گئی ہے۔

اِن جھڑپوں کے نتیجے میں نہ صرف لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا بلکہ بڑی تعداد میں پولیس اہلکار اور پی ٹی آئی کے متعدد کارکن زخمی ہوئے۔

لاہور میں زمان پارک کا علاقہ شہر کے وسط سے گزرتی نہر کے ساتھ واقع ہے جس کے ایک طرف سندر داس روڈ جسے عام طور پر ٹھنڈی سڑک کہا جاتا ہے واقع ہے۔ زمان پارک ایک رہائشی علاقہ ہے جس میں کم بیش 35 سے 40 گھر ہیں۔

زمان پارک اور اِس کے اطراف کے علاقوں میں اب ضلعی انتظامیہ صفائی سترائی کا کام کر رہی ہے۔ زمان پارک کو جانے والے تمام راستے کھول دیے گئے ہیں۔

البتہ زمان پارک کے اطراف میں پی ٹی آئی کارکن اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ عمران خان کی رہائش گاہ سے پولیس اور سادہ کپڑوں میں تعینات اہلکار بھی واپس چلے گئے ہیں جو آپریشن سے کئی روز قبل سے وہاں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

زمان پارک میں پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز منگل کو دوپہر تقریباً چار بجے شروع ہوا۔

پیر اور منگل کی درمیانی شب سے ہی ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پولیس عمران خان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر سکتی ہے۔

بطور صحافی میں منگل کی صبح تقریباً 10 بجے سے ہی وہاں موجود تھا۔ دوپہر تقریباً 12 سے ایک بجے کے قریب زمان پارک کی جانب جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز اور دیگر رکاوٹوں کی مدد سے بند کرنا شروع کر دیا گیا۔ اِس کے ساتھ ہی پولیس کی نفری بھی زمان پارک کے اردگرد پہنچ گئی۔

ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری اپنی ٹیم کے ہمراہ لاہور پہنچے اور لاہور پولیس کے ہمراہ زمان پارک آئے۔

پولیس کی آمد کی خبر سے قبل ہی پی ٹی آئی کے کارکن بڑی تعداد میں زمان پارک جمع ہو گئے۔ اسلام آباد پولیس نے دو بڑے سائز کے نوٹس بورڈ اٹھا رکھے تھے جن پر عدالتی حکم درج تھا۔

اِس دوران اسلام آباد پولیس اسپیکر کی مدد سے بار بار اعلان کر رہی تھی کہ پی ٹی آئی کارکن اُن کے سرکاری کام میں مداخلت نہ کریں۔ وہ یہاں عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے آئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس، لاہور پولیس کے ہمراہ مال روڈ سے زمان پارک کی طرف پیدل روانہ ہوئی۔ ابھی آدھا راستہ ہی ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکن مشتعل ہو گئے۔

پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ عمران خان کی رہائش سے باہر نکلے اور پولیس سے مذاکرات کیے کہ عمران خان عدالت میں خود پیشی کے لیے تیار ہیں۔ پولیس انہیں گرفتار نہ کرے۔ کارکن مشتعل ہو سکتے ہیں۔

ابھی یہ مذاکرات چل رہے تھے کہ اچانک پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں نے پولیس کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا جس کے جواب میں پولیس نے بھی اُنہیں دھکیلا۔ بات بگڑتی چلی گئی اور اچانک پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے جواب میں پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا۔

فریقین کے درمیان تناؤ مزید بڑھا۔ پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ایک حصار بنا کر کھڑے ہوگئے اور حکومت مخالف نعرے لگانے شروع کر دیے۔

پولیس کی عمران خان کے گھر کی جانب پیش قدمی دیکھ کر کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ تیز کر دیا جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا۔

انہی جھڑپوں میں ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری زخمی ہو گئے۔

پولیس نے اپنی پیش قدمی روک دی اور مزید نفری کو بلا لیا۔ اِس کے ساتھ ہی زمان پارک کے علاقہ میں انٹر نیٹ کی سہولت بند کر دی گئی۔

ایس ایس پی آپریشنز لاہور افضال کوثر موقع پر پہنچے اور پولیس کی قیادت کرنے لگے۔ اضافی پولیس کی مدد سے پولیس نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کے گھر کی طرف پیش قدمی شروع کی۔

Your browser doesn’t support HTML5

اس وقت واحد امید پاکستان کی عدلیہ ہے، عمران خان

آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے پولیس عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے پر پہنچی تو اُنہیں وہاں کارکنوں کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بگڑتی صورتِ حال کو دیکھ کر سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ موقع پر پہنچ گئے جس کے بعد پنجاب رینجرز کو طلب کر لیا گیا جس کی قیادت ایک ونگ کمانڈر کر رہے تھے۔

صورتِ حال کو دیکھ کر پولیس کی مزید اضافی نفری کو مال روڈ پر بلا لیا گیا۔ اِس مرتبہ کمان سی سی پی او لاہور نے سنبھالی اور عدالتی احکامات کی تکمیل کے لیے آپریشن کی قیادت کرتے ہوئے زمان پارک کی طرف بڑھنے لگے۔

پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان بار بار زبردست چھڑپیں ہوتی رہی جو وقفے وقفے سے جاری رہیں جس میں ایک واٹر کینن، ٹریفک پولیس وارڈنز کے سیکٹر دفتر، موٹرسائیکلیں، نہر کنارے چند درختوں اور دیگر املاک کو جلا دیا گیا۔

اِسی دوران رات کے10 بج گئے لیکن پولیس کا کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پنجاب رینجرز موقع پر موجود رہی لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ موقع پر موجود ونگ کمانڈر نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ صرف امن اومان کو برقرار رکھنے کے لیے آئے ہیں۔ پنجاب رینجرز کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی۔


مزاحمت کے بعد کارروائی روک دی گئی اور رات 12 بجے وزیراعلٰی پنجاب کی زیرِ صدارت ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں پولیس کے اعلٰی حکام اور رینجرز حکام شریک ہوئے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پولیس ہر صورت عدالتی احکامات پر عمل کرائے گی۔ اجلاس کے بعد گوجرانوالہ، قصور اور شیخوپورہ اضلاع سے پولیس کو لاہور طلب کر لیا گیا جنہوں نے کارروائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنوں کو مال روڈ سے پیچھے دھکیلا اور صورتِ حال کو اپنے قابو میں لیا۔

بدھ کی صبح سی آئی اے پولیس کی مدد سے دوبارہ آپریشن کا آغاز کیا گیا گیا جس کی قیادت ایک مرتبہ پھر سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کر رہے تھے۔

کارروائی سے قبل غیر رسمی گفتگو میں سی سی پی او لاہور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج ہر صورت عمران خان کو عدالتی حکم پر گرفتار کریں گے۔

اِس مرتبہ پولیس عمران خان کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ پولیس نہ صرف وہاں کچھ دیر موجود رہی بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ اور ڈنڈوں کا بھی مقابلہ کرتی رہی۔ پولیس عمران خان کے گھر کے اندر داخل نہیں ہوئی بلکہ وہاں سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی۔

اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے وائس آف امریکہ نے اعلٰی پولیس حکام سے رابطہ کیا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ چار مرتبہ پولیس عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے تک پہنچی لیکن اندر داخل نہیں ہو سکی۔

پولیس حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نگران حکومت کے دور میں برطرف کیے گئے ایس ایچ اوز میں سے کچھ کو دوبارہ ایس ایچ او تعینات کیا گیا جب کہ کئی ایس ایچ او صاحبان بغیر ترقی کے ہی ریٹائر ہو گئے جن کی ریٹائرمنٹ میں دو سے چار ماہ کا عرصہ باقی تھا۔

پولیس حکام کے مطابق عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والی پولیس کے پاس ہتھیار نہیں تھے جن پر پتھروں کے ساتھ ساتھ پیٹرول بم پھینکے گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے لیے آنے والی اسلام آباد پولیس ٹیم پر تشدد ٹریفک سیکٹر نذر آتش، اہلکاروں پر پتھراؤ، واسا ڈسپوزل اسٹیشن کو آگ لگانے کے الزام میں عمران خان، دیگر قیادت اور کارکنوں کے خلاف چار مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

مقدمات ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد اور ایس ایچ او ریس کورس ریحان انور کی مدعیت میں درج کیے گئے ہیں۔