پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ' کی ریلیز کو اس وقت پابندی کا سامنا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا جب کسی پاکستانی فلم پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ فلموں پر پابندی لگانے کا آغاز قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی شروع ہوگیا تھا جو آج تک جاری ہے۔
مشہور صحافی مشتاق گزدر کی کتاب 'پاکستانی سنیما' میں پروڈیوسر اور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے فلموں پر پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "جس ملک کے قیام کے بعد ہی سنیما انڈسٹری کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے وہاں فلموں پر پابندی لگنا عجیب نہیں۔"
بھارت میں متعدد ہٹ فلمیں بناکر پاکستان آنے والے ڈبلیو زیڈ احمد کے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد جب سردار عبد الرب نشتر نے وفاقی وزیر برائے صنعت و تجارت کا عہدہ سنبھالا تو وزارت نے نوٹس جاری کیا تھا کہ "مسلمانوں کو فلمیں نہیں بنانی چاہیے۔"
ڈبلیو زیڈ احمد کا مزید کہنا تھا کہ اس نوٹس میں درج تھا کہ "کیوں کہ فلمیں بنانا اور دیکھنا ایک غیر اسلامی و غیر شرعی فعل ہے، اس لیے یہ کام 'انفیڈلز ' یعنی کافروں کے ذمے ہی رہنا چاہیے۔"
یاد رہے کہ پاکستان میں سینسر بورڈ کی جانب سے پہلی 'بین' ہونے والی فلم کے ہدایت کار بھی ڈبلیو زیڈ احمد ہی تھے۔
ان کی فلم 'روحی' 1954 میں ریلیز ہوئی جس پر اس وجہ سے پابندی عائد کی گئی کیوں کہ اس میں ایک منکوحہ امیر زادی کو خاوند کے ہوتے ہوئے دوسرے نوجوان سے تعلقات قائم کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان میں فلموں پر پابندی عائد کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ آیے چند ایسی ہی فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جو پاکستان میں حکومت یا سینسر بورڈ کی وجہ سے پابندی کا شکار ہوئیں۔
وہ فلمیں جن پر ریلیز سے قبل پابندی لگی
سن 1959 میں مصنف اور ہدایت کار سیف الدین سیف کی 'کرتار سنگھ' قیامِ پاکستان کے بعد بننے والی پہلی فلم تھی جس میں 1947 کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی۔
اس فلم میں مرکزی کردار اداکار علاؤالدین نے ادا کیا تھا جس پر پہلے حکومتی سطح پر تنقید ہوئی لیکن پھر اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
سکھوں کی مثبت انداز میں ترجمانی کرنے پر پابندی کو سینسر بورڈ کی مداخلت کے بعد ہٹا دیا گیا اور آج سات دہائیوں بعد 'کرتار سنگھ 'کا شمار پاکستان کی بہترین فلموں میں ہوتا ہے جسے بھارتی پنجاب میں بھی پسند کیا گیا۔
معروف ہدایت کار شعیب منصور کی فلم 'ورنہ' پر بھی نومبر 2017 میں ریلیز سے قبل حکومتِ پاکستان نے پابندی عائد کردی تھی۔ بعدازاں اسے سوشل میڈیا پر مچنے والے شور کے بعد اس وقت کی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی مداخلت پر ہٹایا گیا۔
فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جسے گورنر کا بیٹا اپنی حوس کا نشانہ بناتا ہے اور کسی کی طرف سے مدد نہ ملنے کی وجہ سے متاثرہ لڑکی اس سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتی ہے۔
اس فلم میں ماہرہ خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ 'ورنہ' پر پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کیوں کہ اس میں حکومتِ پاکستان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
دو برس بعد ہدایت کار و اداکار شمعون عباسی کی فلم 'دُرج' پر ریلیزسے قبل پابندی لگی گئی تھی۔ کیوں کہ اس میں مرکزی کردار کو آدم خور دکھایا گیا تھا جو جیل سے صرف اس لیے چھوٹ جاتا ہے کیوں کہ قانون میں اس جرم کی کوئی سزا ہی نہیں تھی۔
فلم کے ہدایت کار شمعون عباسی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فلم کو بعد میں ریلیز تو کردیا گیا تھا لیکن اس کے کئی سین کاٹنے کے بعد فلم کو ایک ایسے قانون کی نشاندہی کرنے کی وجہ سے بین کیا گیا جس کی عدم موجودگی سے ان دونوں بھائیوں کو جیل سے جلد چھوڑ دیا گیا تھا، جن کی اصل کہانی پر یہ فلم بنائی گئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'درج' کی ریلیز کے بعد اس قانون میں ردوبدل کیا گیا جو خوش آئند ہےاور انہیں اس تبدیلی پر فخر ہے۔
ریلیز کے بعد پابندی کا سامنا کرنے والی فلمیں
سید کمال کو بھارتی اداکار راج کپور سے مشابہت کی وجہ سے ایک مشہور اداکار بننے میں مدد ملی۔
بطور ہدایت کار انہوں نے 60 اور 70 کی دہائی میں کئی کامیاب فلمیں بنائیں جس میں سے ایک1973 میں ریلیز ہونے والی فلم 'انسان اور گدھا' تھی۔
فلم کی کہانی اداکار رنگیلا کے کردار کے گرد گھومتی تھی جو پہلے ایک گدھا تھا جو اللہ سے دعا مانگ کر انسان بن جاتا ہے لیکن پھر انسان کی ایک دوسرے کے خلاف چالیں دیکھ کر وہ دوبارہ گدھا بننے کی دعا مانگتا تھا جو قبول بھی ہوگئی تھی۔
'انسان اور گدھا' فلم میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار رعلی بھٹو کی تقریر کا مذاق بھی اڑایا گیا تھا اور ملک کے حالات پر بھی تبصرہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد اس فلم پر ریلیز ہونے کے بعد پابندی لگادی گئی تھی۔
اداکار نگیلا کی ایک اور فلم 'عورت راج' پر بھی پابندی لگی تھی جو 1979 میں ریلیز ہوئی۔
یہ فلم عورتوں کے حقوق پربننے والی پاکستان کی پہلی فلم تھی جس میں وحید مراد اور رنگیلا دونوں نے خواتین کا کردار نبھایا تھا۔ اسے بھی ریلیز کے بعد صرف اس وجہ سے بین کیاگیا کیوں کہ اس میں حکومت وقت کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
SEE ALSO: 'فلم جاوید اقبال کا دوسرا پارٹ تب ہی آئے گا جب پاکستان میں پہلا ریلیز ہوگا'اسی سال ریلیز ہونے والی پنجابی فلم 'مولا جٹ' کو اس وجہ سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس میں فلم ساز سرور بھٹی نے وہ سین بھی شامل کیے تھے جن پر سینسر بورڈ نے اعتراض اٹھایا تھا ۔
فلمی صحافی یٰسین گوریجہ اپنی کتاب 'پاکستان کی 100 شاہ کارفلمیں' میں لکھتے ہیں کہ جب سینسر بورڈ نے فلم ساز کے خلاف کارروائی کی تو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ جب تک یہ حکم امتناعی جاری رہا فلم کی نمائش بھی جاری رہی۔
اس کے علاوہ اداکار اور ہدایت کار عاشر عظیم کی فلم 'مالک' کو بھی 2016 میں ریلیز کے بعد بین کردیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کو ان کا اپنا باڈی گارڈ گولی مار کر ہلاک کردیتا ہے۔
اس فلم کو تمام سینسر بورڈ نے پاس کردیا تھا اور ملک بھر میں اس کی نمائش بھی جاری تھی لیکن ریلیز کے آٹھویں دن سندھ سینسر بورڈ نے اس پر پابندی لگادی تھی۔
فلم کے ہدایت کار عاشر عظیم نے اس پابندی کے خلاف لاہور ہائی عدالت سے رجوع کیا تھا اور چھ ماہ بعد ا ن کی فلم کو دوبارہ نمائش کی اجازت مل گئی۔
رواں برس کے آغاز میں ہدایت کار ابو علیحہ کی فلم 'جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف آ سیریل کلر' پر پابندی عائد کی گئی۔
فلم کو پنجاب حکومت کی ایما پر بین کیا گیا کیوں کہ اس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ سیریل کلر جاوید اقبال کو پولیس نےگرفتار نہیں کیا تھا بلکہ اس نے خود گرفتاری دی تھی۔
یہ فلم اصلی واقعات پر مبنی تھی اور اس کے ہدایت کار کے بقول دنیا بھر میں جس جس فیسٹیول میں یہ فلم گئی وہاں اسے پذیرائی ملی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ابو علیحہ کا کہنا تھا کہ بغیردیکھے ان کی فلم پر شکایات کاموصول ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ فلم عوام دیکھے اور اس کے بعد فیصلہ کرے کہ یہ اچھی تھی یا بری۔
وہ فلمیں جو سینسر کی گرفت سے باہر نہ نکل سکیں
پاکستان میں صرف ریلیز کی اجازت دینے کے بعد ہی فلموں پر پابندی نہیں لگیں، بلکہ کچھ تو ایسی فلمیں بھی ہیں جنہیں ریلیز کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ایسی ہی فلموں میں سے ایک اے جے کاردار کی 'جاگو ہوا سویرا' ہے جس کا اسکرپٹ 1959 میں معروف شاعر فیض احمد فیض نے لکھی تھی۔
فلم میں مشرقی اور مغربی پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ شامل تھا اور اس کی کہانی بنگلہ دیش کے ایک مچھیروں کے گاؤں کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم حکومت وقت نے اس کی ریلیز سے چند دن پہلے اس پر پابندی لگادی جس کے بعد یہ فلم منظر عام سے غائب ہوگئی تھی۔
تاہم 2016 میں فلم کے پروڈیوسر انجم تاثیر کے بیٹے نعمان تاثیر نے اسے ری ماسٹر کرنے کے بعد اسے مختلف فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے بھیجا جن میں 'کان فلم فیسٹیول' بھی شامل تھا۔
SEE ALSO: مسز اینڈ مسٹر شمیم: 'اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی کہ اپنا کام اپنے ہی لوگ نہ دیکھ سکیں''دی بلڈ آف حسین ' 1980 میں ریلیزہونے والی ایک انگریزی فلم ہے، اس کے ہدایت کار جمیل دہلوی کا تعلق پاکستان سے ہے اور انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان ہی کے خلاف فلم بنائی تھی جو ریلیزسے قبل ہی مشکل میں پڑگئی تھی۔
اس سے پہلے کہ مارشل لا حکومت انہیں گرفتار کرسکتی جمیل دہلوی اس فلم کے پرنٹس سمیت بیرون ملک چلے گئے تھے جہاں انہوں نے مسلح افواج کا مذاق اڑانے والے سین کے ساتھ اس فلم کو ریلیز کیا۔
اسی فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سلمان پیرزادہ کی 'زر گل' کو بھی 1997میں ریلیز سے قبل پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
فلم میں انہوں نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جو عوام دشمن نظام کے خلاف نہ صرف کھڑا ہوجاتا ہے بلکہ آواز بھی اٹھاتا ہے۔
اس کے علاوہ 2003 میں ہدایت کارہ صبیحہ سمار کی فلم 'خاموش پانی' میں بھارتی اداکار انوپم کھیر کی بیوی کیرون کھیر کو جب مرکزی کردار میں کاسٹ کیا تو لوگوں کو حیرانی ہوئی کیوں کہ اس وقت بھارت سے لوگ پاکستان کام کرنے نہیں آتے تھے۔
لیکن چوں کہ فلم کی کہانی 1947 میں اپنے خاندان سے بچھڑ جانے والی ایک ایسی سکھ عورت کی کہانی پر ،بنی تھی جو پاکستان میں زندہ رہنے کے لیے اسلام قبول کرلیتی ہے۔ اس لیے ان کے انتخاب کو درست مانا گیا۔
فلم کی کہانی 1970 اور 1980 کے مارشل لا دور کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ اس لیے فلم کو یہ کہہ کر بین کردیا گیا تھا کہ اس میں بھارتی اداکارہ کی موجودہے۔
ایک اور انڈی پینڈنٹ فلم 'اسلیکستان' جسے 2010میں مکمل کیا گیا تھا۔ اسے بھی اسکرپٹ میں نازیبا الفاظ کی زیادتی کی وجہ سے ریلیز سرٹیفکیٹ نہ مل سکا ۔
فلم کی کہانی ایک ایسے لڑکے کے گرد گھومتی ہے جو ملک کے حالات سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا اثر اس کی ذاتی اور پروفیشنل زندگی پر پڑتاہے۔
اداکار اور ہدایتکار سرمد کھوسٹ کی فلم 'زندگی تماشہ' 2019 میں ریلیز کے لیے پیش کی گئی تھی لیکن اس وقت تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کی وجہ سے اسے ریلیز نہیں کیا گیا۔ اب تین برس بعد بھی معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ریلیز تاخیر کا شکار ہے۔
فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو ویسے تو نعت خواں ہوتا ہے لیکن اس کی ایک نازیبا ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے جس کے بعد اسے ہر طرف تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہدایت کارہ ارم پروین بلال کی 'آئیل میٹ یو دئر' کی جسے رواں سال سینسر بورڈنے پاس کرنے سے ہی منع کردیا تھا۔
'دی بلڈ آف حسین' کی طرح یہ فلم بھی انگریزی زبان میں تھی جس میں محمد قوی خان اور فرحان طاہر جیسے اداکاروں نے کام کیا۔