پاکستان میں اپوزیشن کا آزادی مارچ سیکٹر ایچ نائن کے گراؤنڈ میں موجود ہے جہاں میڈیا چینلز کی ایک بڑی تعداد اس اجتجاج کو کور کر رہی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسی میڈٰیا پر جہاں ایک ہفتہ قبل تک مولانا فضل الرحمان کو لائیو دکھانے پر پابندی عائد تھی، اب گھنٹوں کی کوریج دی جا رہی ہے۔ کیا یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے؟
اس حوالے سے مختلف نشریاتی اداروں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ہدایت ٹی وی چینلز کو نہیں ملی، لیکن حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان سے سینئر صحافیوں کی ملاقات میں وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کو براہ راست دکھانے پر پابندی سے اظہار لاعلمی کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ایسا ہے تو نہیں ہونا چاہیے۔
اس کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات میں بھی پیمرا کی طرف سے ایسی کسی پابندی سے انکار کیا گیا۔ رہی سہی کسر اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالت کی آڑ لے کر اینکرز کو کسی دوسرے ٹی وی چینل کے پروگرام میں بیٹھنے کی پابندی پر چیئرمین پیمرا کی جواب طلبی سے پوری ہو گئی۔ عدالت نے چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس بات کا اختیار کس نے دیا کہ آپ کہیں کہ ایک اینکر کسی دوسرے پروگرام میں نہیں جائے گا؟
ایک ایسی صورت حال میں جب پیمرا بھی عدالتی کارروائی کے نرغے میں ہو، وزیراعظم بھی پابندی سے انجان دکھائی دیتے ہوں تو پھر مولانا کو دکھانے میں کیا حرج ہے۔
اس بارے میں نجی چینل 24 نیوز کے ڈائریکٹر نیوز میاں طاہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی ہدایت دکھانے یا نہ دکھانے کے حوالے سے نہیں ملی تھی۔ البتہ مولانا کو دکھانے کے لیے ایک بڑا عوامی دباؤ تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی چینل اس ریس میں کسی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔
میاں طاہر کا کہنا تھا کہ شہر میں ہونے والی اتنی بڑی سیاسی صورت حال کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جب پورے ملک کی نظریں اس پر جمی ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا میڈیا اب سیلف سینسر شپ نہیں کر رہا، میاں طاہر کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ آج شام کو جب ایک چینل پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا ایک بیان آیا تو تمام چینلز نے اس بیان کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا، لیکن جب اس کے ردعمل میں مولانا فضل الرحمن نے میڈیا ٹاک کی اور اس بیان کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ادارے کی بات کی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں ادارہ خود سامنے آ گیا ہے۔ لیکن ان کے اس بیان کو تمام میڈیا نے بہت محدود انداز میں دکھایا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ایک بیان سامنے آیا ہے تو اس کا جواب بھی مکمل طور پر آتا لیکن بہت سے اداروں نے سیلف سینسر شپ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے جواب کو نہیں دکھایا۔
اس سوال پر کہ کیا مستقبل میں اگر یہ اجتماع ریڈزون کی طرف جائے گا تو کیا اسے دکھایا جائے گا؟ میاں طاہر نے کہا کہ یہ ایسی صورت حال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس پر بھی تمام اداروں کو بہت محتاط ردعمل دینے کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت ہمیں کسی طرف سے کسی کو دکھانے یا نہ دکھانے کے لیے نہیں کہا جا رہ، کیونکہ جمہوری دور میں وزیراعظم ہی سب کچھ ہوتا ہے جو کسی طرح کی پابندی کے نفاذ سے انکار کر چکے ہیں۔ لیکن اب اگر کوئی پابندی لگتی ہے تو وہ آئین اور قانون سے بالاتر صورت حال کا پیش خیمہ ہو گی۔
سیلف سینسر شپ اور باضابطہ سینسرشپ کس طرح کام کر رہی ہے، اس بارے میں سینئر صحافی اور نیشنل پریس کلب کے سابق صدر شہر یار خان کہتے ہیں کہ بہت عرصے سے ان دیکھی سینسر شپ موجود ہے۔ مریم نواز اور نواز شریف کو مجرم کہہ کر دکھانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے، جب کہ ان کے پاس ابھی اپیل کا حق ہے۔ اسی طرح آصف زرداری پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ یہاں احتساب بھی چن چن کر ہو رہا ہے اور سینسر شپ بھی چن چن کر ہو رہی ہے۔ جہانگیر ترین جنہیں نااہل قرار دیا گیا اور ان کے پاس اپیل کا حق بھی نہیں، وہ وزیراعظم کے ساتھ اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں اور ان کے لیے کوئی سینسر شپ نہیں اور کوئی ہدایت نہیں آتی۔
مولانا فضل الرحمن کے جلسے شروع ہوئے تو اس دن سے پابندیاں لگائی گئیں لیکن جب نجی ٹی وی جیو نے عوام کو پیمرا کے حکم کے بارے میں بتایا تو سب کو معلوم ہوا کہ میڈیا کس طرح کی پابندیوں کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ پیمرا نے عدالتی حکم کی آڑ لے کر نوٹس جاری کیے لیکن چیئرمین پیمرا کو نوٹس ملنے کے بعد سے صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور اب چینلز کسی حد تک محتاط انداز میں مولانا فضل الرحمن کو دکھا رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا میڈیا حکومتی پابندیوں کے خلاف بغاوت کر سکتا ہے؟ شہر یار خان کا کہنا تھا کہ میڈیا اس قابل نہیں رہا کہ ایسی بغاوت کر سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کے اشتہارات کا مکمل کنٹرول حکومت کے پاس ہے، جو اسے ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی بغاوت کرے تو کیبل آپریٹرز کے ذریعے اس چینل کو منٹوں میں بند کروا دیا جاتا ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اشتہارات کو رو رہے ہیں تو دوسری طرف خیبر پختونخواہ کے ایک وزیر کروڑوں روپے کے اشہتار لے رہے ہیں۔
شہریارخان کا کہنا تھا کہ دو بڑے میڈیا ہاؤسز ڈان اور جیو بغاوت کی ناکام کوشش کر چکے اور اب سب سے زیادہ حکومتی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بھی اپنی جمعہ کے روز کی تقریر میں کہہ چکے کہ میڈیا مالکان اور اینکرز کھل کر اس آزادی مارچ کا حصہ بنیں اور حکومت کے فیصلوں پر بغاوت کر دیں۔ اگر میڈیا سے پابندی نہ اٹھائی گئی تو پھر ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے۔
پاکستانی میڈیا آئندہ دنوں میں اپوزیشن کو کتنی کوریج دے سکے گا اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو گا لیکن فی الحال وزیراعظم کی جانب سے میڈیا پر پابندی سے انکار اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیئرمین پیمرا کو شوکاز نوٹس کی وجہ سے میڈیا بھی کچھ آزادی محسوس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو دکھا رہا ہے، لیکن اگر کل کہیں سے کوئی واٹس ایپ پیغام آ گیا تو شاید یہ آزادی اسی وقت ختم ہو جائے گی۔