خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں حادثے کا شکار ہونے والی کیبل کار کے مالک اور لفٹ آپریٹر کی گرفتاری پر علاقہ مکینوں کی جانب سے اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یونین کونسل پاشتو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن قاری امان اللہ سواتی کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کیبل کار گزشتہ چھ برس سے دو گاؤں جھکڑی اور بٹنگی کے درمیان آپریٹ کر رہی تھی۔
قاری امان اللہ سواتی نے منگل کے واقعے کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیبل کار جھکڑی اور بٹنگی کو ملانے کا واحد ذریعہ تھی جس سے نہ صرف اسکول کے بچے بلکہ علاقے کے دیگر افراد اور خاص طور پر خواتین بھی سفر کرتی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیبل کار کی بندش کے بعد اب علاقے کے لوگ حتیٰ کہ اسپتال جانے والے افراد کو بھی دو منٹ کے بجائے ایک گھنٹے پر محیط دشوار گزار راستوں پر سے گزر کر پہاڑ کی دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کو جھانگڑی اور بٹنگی کے پہاڑوں کے درمیان واقع دو دیہات کو ملانے والی کیبل کار رسی ٹوٹنے کے بعد تقریبا 900 فٹ کی بلندی پر فضا میں معلق ہو گئی تھی۔ اس کیبل کار میں سات طلبہ سمیت آٹھ افراد سوار تھے۔
امان اللہ سواتی کے مطابق اس حادثے کا سارا الزام کیبل کار مالک پر ڈالنا 100 فی صد زیادتی ہے جب کہ حقیقت میں یہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا جو علاقے کے رہائشیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی تھی۔
ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ کیبل کار کی بندش سے علاقے کے افراد شدید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق علاقے کی مشکلات کا واحد حل ان دو پہاڑوں کے درمیان پل کی تعمیر ہے تاہم اس میں کافی وقت لگے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ جلد سے جلد کوئی متبادل حل تلاش کیا جائے۔
محمد سلطان کا تعلق یونین کونسل پاشتو سے ہے جن کی عمر 75 سال ہے۔ کیبل کار حادثے کے بعد علاقائی مسائل کے حل کے لیے دو روزہ جرگہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت انہوں نے کی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا پاشتو تحصیل الائی کی سب سے بڑی یونین کونسل ہے۔ اس کی آبادی دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان منقسم ہے۔ اس جرگے کا مقصد حکومت سے سڑک کی تعمیر کا مطالبہ ہے جس کی لمبائی تقریباً چار کلومیٹر بنتی ہے۔
ان کے بقول علاقے کے افراد اپنی مدد آپ کے تحت یہ روڈ خود بنانے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ یہاں کے باسیوں کو شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے زمین تو حکومت نے ہی فراہم کرنی ہے۔
محمد سلطان نے مزید بتایا کہ حکومت گوادر سے خیبر تک روڈ کے جال کی بات کرتی ہے، اس علاقے کے دیرینہ مطالبے کو کبھی بھی نوٹس میں نہیں لائی۔ ان کے مطابق اگر علاقائی عمائدین کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پھر وہ دھرنا دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
SEE ALSO: 'موت کے منہ سے واپس آنے کا منظر یاد کر کے مزید خوف کا شکار ہو جاتا ہوں'جھانگڑئی کے رہائشی اور ویلج کونسل ممبر سید نظیر شاہ کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن یہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ دو منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بجائے اب وہ ایک گھنٹے کا کٹھن فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے بقول اس علاقے کے باسیوں کو کسی نہ کسی وجہ سے دوسری جانب جانا پڑتا ہے کیوں کہ اسپتال، اسکول، بازار اور بس اڈے بھی دوسری طرف موجود ہیں۔
سید نظیر شاہ کے مطابق اس نئی صورتِ حال میں سب سے زیادہ تکلیف بڑی عمر کی عورتوں اور بچوں کو ہے۔ اس وقت بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نالے میں پانی کم ہے۔ اس چھوٹے سے نالے کو عبور کرنے کے لیے لکڑی کا ایک چھوٹا سا پُل بنایا گیا ہے۔ تاہم اگر برساتی پانی تیز ہو جائے تو پھر اسے بھی پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہاں گاڑی تک کا راستہ نہیں ہے اور کیبل کار سیل کر دی گئی ہے۔ یہاں کے لوگ غریب ہیں تو ایسے میں گھریلو سازوسامان کے لیے خچروں کے سہارے ہی سامان مہیا کیا جا سکتا ہے جس کا کرایہ ایک ہزار روپے ہے جو لوگوں کی بس سے باہر ہے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ پاشتو کیبل کار کے مالک کے پاس ' ڈولی ' چلانے کا لائسنس نہیں تھا۔ اس لیے افسرانِ بالا کی ہدایات پر اسے سیل کر دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاشتو پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او امجد خان نے بتایا کہ موجودہ حالات میں تو کیبل کار کی حالت بہت خراب ہے۔ رسیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ڈولی کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
ایس ایچ او امجد خان کے مطابق انہیں بھی کیبل کار کی سیل کے بعد جنم لینے والی مشکلات کا احساس ہے تاہم لوگوں کی جانوں کو مزید مشکلات میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔
ان کے بقول اگر ڈپٹی کمشنر کی جانب سے این او سی جاری ہو جاتا ہے تو کیبل کار کی مکمل بحالی اور سیفٹی کے تمام انتظامات کو بروئے کار لاتے ہوئے کیبل کار کی بحالی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔