پاکستان میں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں سے مینار توڑنے اور اُنہیں ہراساں کرنے کی شکایات تو تواتر سے آتی رہتی ہیں۔ لیکن پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں اہلِ سنت اور شیعہ کمیونٹی کی جانب سے مقامی پولیس کو لکھے گئے خط کو مذہبی رواداری کی اچھی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔
نارنگ منڈی کے گاؤں کرتو کے اہلِ سنت اور شیعہ کمیونٹی کے 50 کے لگ بھگ افراد کی جانب سے مقامی پولیس کو ایک خط لکھا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کرتو میں 1960 سے قائم احمدیوں کی عبادت گاہ بیت الزکر میں مینار اور محرابوں پر اُنہیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ان کی اس سے دل آزاری ہوتی ہے۔
احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی احمدی برادری ضلع شیخوپورہ کی مقامی آبادی کی جانب سے اِس اقدام کو مثبت قرار دیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اِس سے ملک میں مذہبی ہم آہنگی بڑھے گی۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی رہنما عامر محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی پھیلانے والے عناصر کا یہ ایجنڈا ہے کہ ملک میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت ملک میں رواداری اور بھائی چارے کے ماحول کو پسند کرتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے پاکستان بھر میں گزشتہ چند ماہ سے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں کے میناروں اور محرابوں کو مساجد کی طرز پر ہونے کے باعث توڑنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے مطابق رواں سال اَب تک پاکستان بھر میں جماعت احمدیہ کی32 عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
تازہ ترین واقعہ صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں 21 ستمبر کو پیش آیا۔ جس میں مارٹن روڈ کراچی میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا۔
SEE ALSO:
اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ: قوانین پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں کو نقصان کیوں پہنچایا جا رہا ہے؟پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے بڑھتے واقعات: کیا مسئلہ صرف مینار ہیں؟پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابقہ چیئرپرسن زہرہ یوسف سمجھتی ہیں کہ گو کہ یہ ایک چھوٹا عمل ہے لیکن اِس سے معاشرے میں مذہبی رواداری اور برداشت کی ایک اُمید پیدا ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے کے ہر طبقے کو اِس عمل کو سراہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ عدالتِ عالیہ لاہور نے اسلامی طرز تعمیر کی طرح احمدیوں کی عبادت گاہ بنانے سے متعلق ایک کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ درست ہے کہ مینار مسلمانوں کی مذہبی علامت ہیں۔ لیکن یہ ایک تعمیراتی فیچر بھی ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ توہینِ مذہب آرڈیننس 1984 میں آیا تھا، لہذٰا اس سے قبل تعمیر ہونے والی عبادت گاہوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے مساجد میں مینار نہیں ہوتے تھے اور اذان سب سے بلند چھت سے دی جاتی تھی۔