رسائی کے لنکس

اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ: قوانین پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟


پاکستان کے صوبے پنجاب کی تحصیل جڑانوالہ میں توہینِ مذہب کے الزام کے بعد جلاؤ گھیراؤ کے واقعات نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ملک کے قانون میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی دفعات موجود ہیں تو ان پر عمل درآمد میں کیا رکاوٹ ہے؟

ماہرِ قانون محمد فاروق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کی شق 20 سے لے کر 27 تک ہر فرد کو بلا کسی امتیاز اپنے مذہب پر عمل کی آزادی، مذہب کی بنیاد پر کوئی ٹیکس لینے، کسی مذہبی امتیاز کی بناء پر تعلیم سمیت املاک کے تحفظ اور دیگر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔

پاکستان پینل کوڈ کے مذہب سے متعلق جرائم کے باب میں یعنی سیکشن 295 میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص کسی بھی عبادت گاہ کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے یا کسی بھی مذہب کی توہین کرے اسے دو سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔

اسی دفعہ کی ذیلی دفعات میں مذہبی جذبات کی توہین، قرآن پاک کی بے حرمتی اور پھر پیغبر اسلام کی توہین کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔

اسی طرح پینل کوڈ کے سیکشن 296 میں کسی مذہبی تقریب میں خلل ڈالنے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے جب کہ سیکشن 297 میں قبرستانوں کی توہین کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی نو سال قبل دیے گئے اپنے ایک فیصلے میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کو جرم قرار دیا تھا۔ اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جائے۔

سپریم کورٹ کا یہ حکم پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے اس خودکش دھماکے کے بعد لیے جانے والے ازخود نوٹس کیس میں جاری کیا گیا تھا جس میں درجنوں بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حالیہ عرصےمیں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں مسیحی، ہندو اور احمدی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا یا انہیں نذر آتش کیا گیاہے۔ ان واقعات میں سے اکثر میں ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا یا پھر مجرم کمزور شواہد پیش کرنے کی بناء پر سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

حال ہی میں سندھ کے ضلع کشمور میں ہندوؤں کے ایک مذہبی مقام پر فائرنگ کی گئی تھی۔ اس سے قبل تھرپارکر، میرپورخاص میں چھوٹےواقعات اور 2014 میں لاڑکانہ میں دھرم شالہ مندر پر حملے جیسے بڑے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔

اسی طرح پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں 2021 میں ایک مندر پر حملہ کرکے اسے شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لیا تھا۔ سال 2009 میں گوجرہ میں مسیحیوں کی بستیوں اور وہاں قائم گرجا گھروں کو جلانے کے علاوہ سال2015 میں لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں بھی ایسے ہی واقعات میں بڑے پیمانے پر مسیحی برادری کی عبادت گاہوں اور املاک کو جلادیا گیا تھا۔

یہی سلسلہ خٰبر پختونخوا میں بھی نظرآیا جب کرک کے علاقے میں سال 2020 میں ایک مندر پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیا گیا تھا۔

اقلیتوں کے تحفظ میں ناکامی کیوں؟

پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آئینی تحفظ،پارلیمان کے قوانین میں نمائندگی اور دیگر اسٹیک بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی عبادت گاہوں اور املاک کو ایسے واقعات میں تحفظ کیوں نہیں مل پاتا؟

انسانی حقوق اور اقلیتوں کے امور پر کام کرنے والے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین نے مذہبی اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے لیکن اصل مسئلہ ان قوانین کے اطلاق کا ہے۔

انسانی حقوق اور اقلیتوں کو درپیش مسائل پر کام کرنے والے ادارے سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کہتے ہیں قوانین پر عمل درآمد میں اصل رکاوٹ ریاست کا یرغمال بن جانا ہے۔

ان کے خیال میں پاکستانی ریاست ایسی طاقتوں اور انتہا پسند گرہوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جو ان قوانین پر عمل درآمد کرانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پیٹر جیکب نے کہا کہ ریاست کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جڑاںوالہ واقعے سے متعلق بھی انتظامیہ کو معلوم تھا کہ حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن پولیس سمیت سب ادارے غیر فعال نظر آئے۔ ایک فوٹیج میں تو یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں عیسائی قبرستان کی بے حرمتی کی جارہی تھی۔

دوسری جانب انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور جڑانوالہ واقعے میں پولیس کی تاخیر سے کارروائی کےتاثر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس کے ایکشن کی وجہ سے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

سابق پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند مالہی کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ واقعے کے بعد اس کی مذمت زبانی کلامی دکھائی دیتی ہے اور اس کا مقصد قومی اور بین الاقوامی طور پر لوگوں کو مطمئن کرنا نظر آتا ہے لیکن مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد کا واضح فقدان نظرآتا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ معاملے کو کسی طرح دبادیا جائے۔

جڑانوالہ میں جلاؤ گھیراؤ: 'کلمے کی وجہ سے ہماری جان بچ گئی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:29 0:00

لال چند مالہی نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان پینل کوڈ میں کی جانے والی ترامیم میں توہینِ مذہب کا اسکوپ مزید بڑھایا گیا ہے ۔ ان کے خیال میں اس کا مقصد برسر اقتدار اتحادی جماعتوں کی جانب سےیہ سب کرکے اپنے ووٹر زکو مطمئن کرنا نظر آتا ہے لیکن جب بات انہی قوانین پر عمل درآمد کی آتی ہے تو حکومتیں اس میں پس و پیش کرتی نظر آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ توہینِ مذہب کا الزام جب کسی عیسائی، ہندو یا کسی اور مذہب کے ماننے والے پر عائد کیا جاتا ہے تو ردِ عمل کے طور پر اس پوری کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہےبجائے اس کے کہ صرف اسی شخص کو ملزم بنایا جائے اور قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔

"واضح ہوتا ہے کہ ریاست کی نیت کمزور ہے"

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق شریک چئیر پرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ اقلیتوں پر حملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ریاست کی حکمرانی کمزور ہوچکی ہے اور ریاستی رٹ کمزور ہونے کا فائدہ ایسے انتہا پسند عناصر اٹھاتے ہیں جو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی مرضی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں قانونی اور آئینی طور پر اقلیتوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں عملی طور پر انہیں وہ حقوق نہیں دیے گئے۔ ریاست کی رٹ نہیں ہے بلکہ اصل میں ان کی نیت کمزور ہے کہ ایسے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلائی جائیں جو لوگوں کی مذہبی عبادت گاہوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

سندھ پولیس نے سال 2022 میں صوبے میں اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے تحت پولیس اہلکاروں کواقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹےتعینات کیا جانا تھا لیکن ایک سال بعد بھی اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

اسی طرح اسلام آباد پولیس نے بھی رواں ہفتےاقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مائنارٹی پروٹیکشن یونٹ بنانے کا اعلان کیا ہے۔

پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا (سینیٹ) نےاس ماہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ایک بل کو فی الحال منظور نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر سول سوسائٹی نے بھرپور احتجاج کیا تھا اور اسے نامکمل قرار دیا تھا۔

سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اس بل کے نتیجے میں وجود میں آنے والے مائنارٹی کمیشن میں بے جا حکومتی مداخلت ہوگی اور وہ آزادنہ کام نہیں کرسکے گا جس سےبل کا مقصد فوت ہوجائے گا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG