مالدیپ کی عدالت نے حال ہی میں مستعفی ہونے والے ملک کے پہلے منتخب جمہوری صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں جنہوں نے ملک میں رہنے اور قانونی کاروائی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق صدر محمد ناشید کی جماعت 'مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی' کے ایک عہدیدار کے مطابق ملک کی ایک عدالت نے سابق صدر اور ان کی کابینہ میں شامل سابق وزیرِ دفاع کی گرفتاری کا حکم دیا ہے تاہم دونوں افراد کے خلاف عائد الزامات تاحال واضح نہیں ہوسکے ہیں۔
دریں اثنا سابق صدر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں جلد جیل بھیج دیا جائے گا۔ جمعرات کو اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ناشید نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری مالدیپ کے سیاسی بحران پر فوری ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔
سابق صدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ قانونی کاروائی کے خوف سے ملک نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ ان کے بقول ایسا کرنے سے "ملک ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا جو اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں"۔
گزشتہ روز سابق صدر کے حامیوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپیں دارالحکومت مالے اور دیگر قریبی جزائر تک پھیل گئی تھیں۔ نیشنل پولیس کمشنر عبداللہ ریاض کے مطابق جھڑپوں کے دوران میں مظاہرین نے مختلف جزائر کے 18 تھانوں کو تباہ کردیا اور کئی سرکاری دفاتر میں توڑ پھوڑ کی۔
ملک کے نئے وزیرِ داخلہ محمد جمیل احمد کے بقول تشدد کی حالیہ لہر کی مالدیپ کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یاد رہے کہ محمد ناشید نے ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں اور پولیس افسران کی بغاوت کے بعد منگل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
صدر کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری تھا جس کا آغاز صدر کی جانب سے 'مس کنڈکٹ' اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ رعایت برتنے کے الزامات میں ملک کے ایک اعلیٰ جج کی گرفتاری کا حکم دینے کے ردِ عمل میں ہوا تھا۔
مالدیپ کے اس وقت کے نائب صدروحید حسن، ملک کی سپریم کورٹ اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے گرفتار جج کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سابق صدر نے اپنے استعفیٰ کو بغاوت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے نائب صدر پہ سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم وحید حسن نے، جو ناشید کے استعفیٰ کے بعد ملک کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں، سابق صدر کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔