امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین نے کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک ’’ابھی تک کارروائیاں کر رہا ہے، جس سے افغانستان کے لیے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ ’’لیکن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وزیرستان میں اہم کامیابی حاصل کی گئی ہے‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کے ساتھ انٹرویو میں مکین نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ’’لڑائی میں ساڑھے چھ ہزار پاکستانی فوجی ہلاک جب کہ 16000 زخمی ہوچکے ہیں‘‘، جس کارروائی کو اُنھوں نے ’’ایک بہت ہی بڑی پیش رفت‘‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور اِس کے داعش کے ساتھ تعلقات ہیں۔
تاہم، سینٹر مکین نے کہا ہےکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’اِس سمت میں پاکستانی فوجی قیادت پیش رفت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آیا وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنا ہوگا‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ بات افغانستان کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرے، خاص طور پر یہ امریکہ کے مفاد میں ہے، کیونکہ ہم سب کو پتا ہے کہ پاکستان کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار ہیں، جو اگر غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو اِس سےسارا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔
امریکی سینیٹ کے ایک وفد کے سربراہ کی حیثیت سے، سینیٹر مکین نے گذشتہ دِنوں پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں جان مکین نے کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔
مالی معاونت کے سلسلے میں اُنھوں نے کہا کہ ’’حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے کانگریس کو صدر سالانہ سرٹیفیکٹ دیتے ہیں؛ جو اقدام کیا گیا ہے۔ ادھر ایف 16 کی فنڈنگ روکی گئی ہے‘‘۔
جان مکین نے کہا کہ پاکستان کی فوج اور سولین حکام سے گفتگو کے دوران یہ بات واضح کی گئی کہ ہم تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی میں پیش رفت دیکھنا چاہتے ہیں۔ بقول اُن کے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کچھ اختلافات موجود ہیں، جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے، اور اس امید کا اظہار کیا کہ انھیں دونوں ملکوں کے رہنما مکالمے کے ذریعے حل کریں گے۔