سوشل میڈیا پوسٹ کا کمال، سمندر میں ڈوبی خاندانی انگوٹھی مل گئی

Lost Ring Returned

امریکہ کی ریاست میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی سمندر میں گر جانے والی ہیرا جڑی خاندانی انگوٹھی ایک شخص نے میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے ڈھونڈ نکالی۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق فرینچسکا ٹیل نامی خاتون نے مقامی اخبار ’دی بوسٹن گلوب‘ کو بتایا کہ وہ نیو ہیمپشائر کی ہیمپٹن میں واقع ’نارتھ بیچ‘ پر اپنے شوہر کے ہمراہ فٹ بال کھیل رہی تھیں کہ ان کے ہاتھ سے یہ انگوٹھی گر کر سمندر میں ڈوب گئی تھی۔

ان کی عمر ​ 29 برس ہے ، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہیرے جڑی انگوٹھی ان کی پردادی کی ملکیت تھی اور ان کے خاندان میں ورثے کے طور پر چلی آ رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کئی گھنٹوں کی تلاش کے باوجود بھی انہیں پانی میں انگوٹھی نہ مل سکی تھی۔

فرینچسکا نے انگوٹھی کے گم جانے کے بارے میں فیس بک پر پوسٹ لگائی اور لوگوں سے اپیل کی کہ جو لوگ بھی ساحل کے اس طرف جاتے رہتے ہیں، وہ میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے اس انگوٹھی کی تلاش جاری رکھیں۔

ان کی اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر ہزاروں دفعہ شئیر کیا گیا۔ ان کی یہ پوسٹ لوئی آسکی نامی شخص کی نظر سے بھی گزری۔

ساٹھ برس کے لوئی نے، جن کا تعلق مارشفیلڈ علاقے سے ہے، پانی سے بچاؤ کا سوٹ پہنا، لیمپ اور میٹل ڈیٹیکٹر پکڑ کر پانی میں جا پہنچے۔

وہ اپنے میٹل ڈیٹیکٹر سے بنا کسی کامیابی کے اگلے دو روز تک فرینچسکا کی پردادی کی انگوٹھی ڈھونڈتے رہے۔

انہوں نے ’دی بوسٹن گلوب‘ کو بتایا کہ انہیں ناکامی پسند نہیں ہے۔

انگوٹھی کی تلاش کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں واپس جا کر اسے ایک آخری موقع دینا چاہتا تھا۔‘‘

جب انہیں سمندر کی ریت سے انگوٹھی ملی تو انہوں نے فرینچسکا کو پیغام میں لکھا کہ ’’خدارا مجھے بتاؤ کہ یہ وہی انگوٹھی ہے تاکہ مجھے اس ساحل سے چھٹکارا ملے۔‘‘

لوئی نے یہ انگوٹھی فرینچسکا کے گھر تک پہنچائی اور ان کے شوہر نے یہ انگوٹھی دوبارہ سے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر، فرینچسکا کو پہنائی۔

SEE ALSO: کروڑوں ڈالر کے نادر فن پارے ہتھیانے کی سازش، والدہ کو دھوکا دینے والی بیٹی گرفتار

فرینچسکا نے اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں لکھا کہ وہ گزشتہ ہفتے اجنبیوں کی جانب سے کی گئی مہربانیوں سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔

ان کے بقول ’’انسانیت کا اتنے مثبت انداز میں مشاہدہ کرنا بہت شاندار ہے۔ اس کی وجہ سے میرا خود پر اور دوسروں پر بھروسہ بڑھ گیا ہے۔‘‘​

اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔