پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر براہِ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پیمرا کا کہنا ہے کہ تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز عمران خان کی ریکارڈ کی ہوئی تقریر تو نشر کرسکتے ہیں البتہ اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایڈییٹوریل کنٹرول کے ساتھ تقاریر کا جائزہ لیا جائے۔
دارالحکومت اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ہفتے کی شام عمران خان کی تقریر کے بعد رات گئے پیمرا کی طرف سے یہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ جس پر فوری عمل درآمد کا کہا گیا ہے۔
وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے سے کچھ دیر قبل سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ خاتون مجسٹریٹ، پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو دھمکی دی گئی۔
عمران خان کی تقاریر پر پابندی عائد
الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی کے اعلامیے کے مطابق عمران خان کی تقریر پر پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 کے تحت پابندی کی گئی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عمران خان اپنی تقاریر میں ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں۔
اعلامیے میں عمران خان کی تقریر کے الفاظ لکھے گئے ہیں، جن کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ “شرم کرو آئی جی اسلام آباد، آئی جی تم اور ڈی آئی جی تمہیں تو ہم نے نہیں چھوڑنا۔ تمہارے اوپر کیس کرنا ہے۔ مجسڻریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے۔ آپ سب کو شرم آنی چاہیے ۔”
پیمرا کا نوٹیفکیشن میں کہنا ہے کہ قوانین کے مطابق نفرت انگیز گفتگو اور ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے پر پابندی ہے اور تمام ٹی وی چینلز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے بچنے کے لیے تاخیر کا نظام (ڈیلے سسٹم) نصب کریں۔
پیمرا کی اس پابندی کے بعد اب عمران خان کی تقاریر کچھ تاخیر سے دکھائی جائیں گی اور انہیں براہِ راست نہیں دکھایا جاسکے گا۔
عمران خان اگر کسی ریاستی ادارے کے خلاف بات کریں گے تو اسے سنسر کردیا جائے گا۔
’تحریکِ انصاف ٹی وی چینلز پر انحصار نہیں کرتی‘
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اسلام آباد میں دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان پر پابندی ان کی تقریر کے خوف سے لگائی جا رہی ہے۔
انہوں نے سابق وزیرِ اعظم نوازشریف پر عائد پابندی کے حوالے سے کہا کہ پوری دنیا میں مفرور کے حقوق کو محدود کیا جاتا ہے۔ مفرور پر اس لیے پابندی لگائی جاتی ہے تاکہ اسے قانون کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پر پابندی سے حکمران مزید بے نقاب ہوئے ہیں اور کچھ نہیں ہوا۔
پیمرا کی پابندی پر فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کی تقریر براہِ راست نشر کرنے پر عائد پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ان کے مطابق تحریکِ انصاف ویسے بھی ٹی وی چینلز پر انحصار نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا سنسرشپ کا شکار ہے۔ تحریکِ انصاف عوام پر انحصار کرتی ہے اور وہ اس طرح کے ذرائع کی محتاج نہیں ہوتی۔
عمران خان نے کیا کہا؟
شہباز گل کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کے لیے ہفتے کی شام اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ سے ایف نائن پارک تک ایک ریلی نکالی گئی۔
تحریکِ انصاف کی اس ریلی کے اختتام پر ایف نائن پارک میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اسلام آباد کی مقامی عدالت کی مجسٹریٹ زیبا چوہدری، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم تمھیں دیکھ لیں گے اور تمھارے خلاف کارروائی کریں گے۔‘‘
اُدھر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے مجسٹریٹ اور پولیس افسران کو دھمکی دینے پر سپریم کورٹ سے عمران خان کی تقریر پر از خود نوٹس لینے اور وزارت داخلہ سے عمران خان اور ساتھیوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے مجسٹریٹ کو دھمکی دینے پر عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ دھمکی کو ساری دنیا نے لائیو دیکھا۔ اب عمران خان قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
تقریر کے دوران پولیس اور عدالتی افسر کے بارے میں ایسے الفاظ کہنے کے علاوہ عمران خان نےیہ بھی کہا کہ میرا نیوٹرلز سے سوال ہے کہ کیا واقعی آپ نیوٹرل ہیں؟ ہمیں کہا گیا کہ ہم نیوٹرل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ایجنسیاں بہترین ہیں لیکن اسلام آباد پولیس کہتی ہے کہ اوپر سے حکم آیا تھا، انہوں نے شہباز گل پر تشدد نہیں کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جس طرح کا بیان شہباز گل نے دیا۔ اس سے زیادہ سخت بیانات نواز شریف، آصف زرداری، خواجہ آصف، مولانا فضل الرحمٰن نے دیے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔
انہوں نے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے حوالے سے کہا کہ خواجہ آصف سے دوستی کی وجہ سے وہ جو مرضی کہہ لیں، ہم ان سب پر کیس کریں گے۔ اگر شہباز گل کے خلاف ایکشن ہوسکتا ہے تو ان کے خلاف بھی ایکشن لینا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ شہباز گل پر تشدد کرکے انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے البتہ کوئی انہیں خوف زدہ کرکے غلام نہیں بنا سکتا۔ ان کی جنگ آئین کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وکلا سے ملے ہیں اور اب وہ آئی جی اسلام آباد ، ڈی آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اس پر کارروائی کرے۔ انہیں طاقت ور نے دکھایا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔
پولیس اور مجسٹریٹ کو دھمکی پر اندراج مقدمہ کی درخواست
عمران خان کی طرف سے اسلام آباد پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو مبینہ طور پر دھمکی دیے جانے پر عمران خان کے خلاف اندراج مقدمہ کے لیےاسلام آباد کے تھانہ رمنا میں باضابطہ درخواست دے دی گئی ہے۔
پولیس نے درخواست وصول کرکے ڈائری نمبر بھی جاری کردیا ہے۔
ضیاالرحمن گوندل ایڈووکیٹ کی طرف سے دی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے اپنی تقریر کے ذریعے کارکنوں کو عدلیہ کے خلاف اکسانے کی کوشش کی ہے تاکہ عدالتوں پر دباؤ ڈال کر وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کے حق میں فیصلے کراسکیں۔ کسی بھی جج کو دھمکی دینا توہینِ عدالت ہے، لہذا عمران خان کے خلاف عدلیہ و فوج کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق اسلام آباد پولیس کے بعض اہل کاروں نے آئی جی اسلام آباد کے خلاف مبینہ توہین آمیز زبان کے استعمال کی وجہ سے عمران خان کے گھر پر سیکیورٹی ڈیوٹی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تاہم اس بارے میں پولیس کی طرف سے اب تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ عدلیہ کو اب معلوم ہو گیا ہوگا کہ سسیلین مافیا کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی ایجنٹ عمران خان پاکستان اور اس کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ قومی اداروں اور ریاستی رٹ کو چیلنج کر کے عوام کو تشدد، لاقانونیت، بغاوت اور فساد پر اکسا رہے ہیں۔ عمران خان ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں۔