بدھ کو جن سربراہانِ مملکت نے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا ان میں گزشتہ برس عالمِ عرب میں چلنے والی تحریک کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والے دو صدور بھی شامل تھے۔
واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس کے دوسرے روز ہونے والی تقاریر میں مشرقِ وسطیٰ سے متعقس موضوعات سرِ فہرست رہے۔
بدھ کو جن سربراہانِ مملکت نے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا ان میں گزشتہ برس عالمِ عرب میں چلنے والی تحریک کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والے دو صدور بھی شامل تھے۔
اپنے خطاب میں مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی نے اپنے ملک کی ناپائیدار جمہوریت سے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کیا اور فلسطینیوں کی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کرنے کے علاوہ شام میں جاری بحران کے علاقائی حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے مصری صدر کی تقریر کو عالمی رہنمائوں نے بہت توجہ سے سماعت کیا جس میں انہوں نے شام میں جاری قتل و غارت اور انسانی المیے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔
مصری صدر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں جاری بحران کے حل میں بنیادی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے لیکن شام میں بیرونی فوجی مداخلت کی ہرگز حمایت نہیں کرے گا۔
محمد مرسی نے کہا کہ شامی عوام مصریوں کو بہت عزیز ہیں اور وہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھنے میں حق بجانب ہیں جس میں وہ آزادی اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔
مسئلہ فلسطین کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مصری صدر نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر آبادکاری اور مقبوضہ یروشلم کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے۔
واضح رہے کہ ایک یہودی مذہبی تہوار کے باعث اسرائیلی وفد جنرل اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
اپنے خطاب میں مصری صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی ممالک اور باقی دنیا کے مابین افہام و تفہیم بڑھانے کے لیے کام کریں گے۔
قبل ازیں یمن کے صدر عابد ربو منصور ہادی نے بھی جنرل اسمبلی سے اپنا پہلا خطاب کیا۔ ایک برس تک جاری رہنے والی سیاسی کشمکش کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کی اقتدار سے رخصتی کے بعد منصور ہادی نے رواں برس فروری میں یمن کا اقتدار سنبھالا تھا۔
اپنے خطاب میں یمنی صدر نے اقوامِ متحدہ سے فلسطین کو عالمی ادارے کی مکمل رکنیت دینے اور شام میں انتقالِ اقتدار کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں پرامن تبدیلی کے آغاز اور انتخابات کے ذریعے انتقالِ اقتدار پر آمادہ ہونے کے سوا شامی حکومت کے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔
منگل کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شام میں جاری بحران کو ایک ایسا علاقائی المیہ قرار دیا تھا جس کے، ان کے بقول ، عالمی اثرات ہوں گے۔
اپنے خطاب میں بان کی مون نے صدر بشارالاسد کی حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا تھا۔
بدھ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جن دیگر عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا ان میں اہم ترین ایران کے صدر احمدی نژاد تھے جنہوں نے اس عالمی فورم کو حسبِ سابق امریکہ پر کڑی تنقید کے لیے استعمال کیا۔
ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی کڑی نکتہ چینی کی اور الزام عائد کیا کہ کونسل بعض حکومتوں کے زیرِ اثر کام کرتی ہے۔
صدر احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے کے ارکان کے مابین موجود امتیاز "سب کی توہین" ہے۔ ان کے بقول بعض ریاستوں کو حاصل ویٹو کے اختیار اور ان کی من مانی کے باعث سلامتی کونسل کے لیے اقوامِ عالم کے حقوق کا تحفظ کرنا ممکن نہیں رہا۔
ایران کے صدر کی حیثیت سے احمدی نژاد کا جنرل اسمبلی کے اجلاس سے یہ آخری خطاب تھا جس کا حسبِ سابق امریکی وفد نے بائیکاٹ کیا۔
یاد رہے کہ صدر احمدی نژاد کی دوسری مدتِ صدارت آئندہ برس جون میں ختم ہورہی ہے اور ایرانی آئین کے تحت وہ تیسری مدت کےلیے صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتے۔
بدھ کو جن سربراہانِ مملکت نے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا ان میں گزشتہ برس عالمِ عرب میں چلنے والی تحریک کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والے دو صدور بھی شامل تھے۔
اپنے خطاب میں مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی نے اپنے ملک کی ناپائیدار جمہوریت سے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کیا اور فلسطینیوں کی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کرنے کے علاوہ شام میں جاری بحران کے علاقائی حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے مصری صدر کی تقریر کو عالمی رہنمائوں نے بہت توجہ سے سماعت کیا جس میں انہوں نے شام میں جاری قتل و غارت اور انسانی المیے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔
مصری صدر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں جاری بحران کے حل میں بنیادی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے لیکن شام میں بیرونی فوجی مداخلت کی ہرگز حمایت نہیں کرے گا۔
محمد مرسی نے کہا کہ شامی عوام مصریوں کو بہت عزیز ہیں اور وہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھنے میں حق بجانب ہیں جس میں وہ آزادی اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔
مسئلہ فلسطین کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مصری صدر نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر آبادکاری اور مقبوضہ یروشلم کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے۔
واضح رہے کہ ایک یہودی مذہبی تہوار کے باعث اسرائیلی وفد جنرل اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
اپنے خطاب میں مصری صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی ممالک اور باقی دنیا کے مابین افہام و تفہیم بڑھانے کے لیے کام کریں گے۔
قبل ازیں یمن کے صدر عابد ربو منصور ہادی نے بھی جنرل اسمبلی سے اپنا پہلا خطاب کیا۔ ایک برس تک جاری رہنے والی سیاسی کشمکش کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کی اقتدار سے رخصتی کے بعد منصور ہادی نے رواں برس فروری میں یمن کا اقتدار سنبھالا تھا۔
اپنے خطاب میں یمنی صدر نے اقوامِ متحدہ سے فلسطین کو عالمی ادارے کی مکمل رکنیت دینے اور شام میں انتقالِ اقتدار کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں پرامن تبدیلی کے آغاز اور انتخابات کے ذریعے انتقالِ اقتدار پر آمادہ ہونے کے سوا شامی حکومت کے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔
منگل کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شام میں جاری بحران کو ایک ایسا علاقائی المیہ قرار دیا تھا جس کے، ان کے بقول ، عالمی اثرات ہوں گے۔
اپنے خطاب میں بان کی مون نے صدر بشارالاسد کی حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا تھا۔
بدھ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جن دیگر عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا ان میں اہم ترین ایران کے صدر احمدی نژاد تھے جنہوں نے اس عالمی فورم کو حسبِ سابق امریکہ پر کڑی تنقید کے لیے استعمال کیا۔
ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی کڑی نکتہ چینی کی اور الزام عائد کیا کہ کونسل بعض حکومتوں کے زیرِ اثر کام کرتی ہے۔
صدر احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے کے ارکان کے مابین موجود امتیاز "سب کی توہین" ہے۔ ان کے بقول بعض ریاستوں کو حاصل ویٹو کے اختیار اور ان کی من مانی کے باعث سلامتی کونسل کے لیے اقوامِ عالم کے حقوق کا تحفظ کرنا ممکن نہیں رہا۔
ایران کے صدر کی حیثیت سے احمدی نژاد کا جنرل اسمبلی کے اجلاس سے یہ آخری خطاب تھا جس کا حسبِ سابق امریکی وفد نے بائیکاٹ کیا۔
یاد رہے کہ صدر احمدی نژاد کی دوسری مدتِ صدارت آئندہ برس جون میں ختم ہورہی ہے اور ایرانی آئین کے تحت وہ تیسری مدت کےلیے صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتے۔