بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے ماضی میں وابستہ رہنے والے ماہرِ تعلیم سید خالد رضا کی ہلاکت کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ایک ہفتے کے دوران ملک میں غیرفعال جہادی گروہوں سے وابستہ دو اہم رہنماؤں کی ہلاکت میں کون ملوث ہے؟
پچپن سالہ خالد رضا کو نامعلوم افراد نے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اتوار کو ان کے گھر کے باہر فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ وہ شہر کی نجی اسکولوں کے مالکان کی تنظیم کے رہنما اوردارلارقم اسکول کراچی ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔
پولیس کا کہناہے کہ خالد رضا کا قتل ڈکیتی کا شاخسانہ نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ ہے کیوں کہ موٹرسائیکل پرسوار ملزمان نے کوئی لوٹ مار نہیں کی۔
کراچی میں جہادی تنظیموں سے وابستہ حلقوں کا کہناہے کہ خالد رضا کاتعلق جماعت اسلامی سے تھا اورماضی میں وہ بھارت کے زیراتنظام کشمیر میں فعال 'البدرمجاہدین' کے سابق کمانڈر رہ چکے تھے مگرکچھ برسوں سے جہادی سرگرمیوں میں غیرفعال تھے۔
سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان جن جہادی نوجوانوں کو مدد فراہم کر رہی تھی انہیں 'البدر مجاہدین' کا نام دیا گیا تھا۔
خالد رضا کے قتل سے چھ روز قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں بھی اسی طرز کی ایک کارروائی میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فعال جہادی تنظیم 'حزب المجاہدین' سے وابستہ اہم کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم ہلاک ہوئے تھے۔
بشیر احمد کی نمازہ جنازہ اسلام آباد میں ادا کی گئی تھی جس کی امامت کشمیر میں عسکریت پسندی میں فعال تنظیموں کے اتحاد 'متحدہ جہاد کونسل' کے سربراہ سید صلاح الدین نے کی تھی۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر سے شائع ہونے والے جریدے 'چٹان' کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر میں بھارت کی مرکزی حکومت نے بشیر احمد کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت دہشت گرد قرار دیا تھا۔
کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں سرگرم رہنے والے ایک اور سابق کمانڈر گزشتہ برس مارچ میں کراچی کے علاقے اختر کالونی میں مارے گئے تھے۔ زاہد اخوند عرف مستری ظہور اختر کالونی میں فرنیچر کی دکان چلاتے تھے۔
جہادی حلقوں اوربھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق زاہد اخوند کشمیرمیں فعال عسکری تنظیم جیش محمد سے وابستہ کمانڈر تھے جو 1999 میں ایئر انڈیا کے طیارے کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے۔
ہلاکتوں کے پیچھے کون؟
پاکستان میں جہادی تنظیموں کے معاملات اورسرگرمیوں پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی سے جڑے جہادی گروہوں سے وابستہ افراد کی پاکستان میں ہلاکت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
لاہور میں مقیم صحافی اورمحقق ماجد نظامی پاکستان کے ایسے چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو بھارتی کشمیر میں فعال جہادی تنظیموں کا کافی عرصے سے مطالعہ کرتے آرہے ہیں۔
وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چوں کہ ایسی کارروائیوں میں کوئی بھی گروہ ذمے داری قبول نہیں کرتا اسی لیے ان ہلاکتوں کے محرکات کو سمجھنے کے لیے مختلف حقائق اورواقعات کوجوڑ کر پرکھنا پڑتاہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما کی اسلام آباد میں ہلاکت، تفتیش جاریماجد نظامی کہتے ہیں ایک سال میں ہونے والے ان واقعات میں ایک بات مشترک ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے بھارت کے زیراتنظام کشمیر میں عسکریت پسندی سے ہے اور زیادہ ترواقعات میں ان ہلاکتوں کی خبریں بھارتی ذرائع ابلاغ سے ہی معلوم ہوئی ہیں۔
ان کےبقول، " ہلاک ہونے والے مذکورہ رہنماؤں کے جنازوں میں شریک لوگوں سے بات چیت سے بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی جانوں کو بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' سے خطرہ تھا۔'
کیا خالد رضا کے قتل میں سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم ملوث ہے؟
سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم سندھودیش ریولشنری آرمی (ایس آر اے)نے خالد رضا کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ مذہبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیم البدر کے کارندے اورپاکستانی ایجنسیوں کے آلہ کارخالد رضا کوہلاک کرنے کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔"
'ایس آر اے' سندھ کی سطح پرفعال ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ہے جس پرحکومت پاکستان نے مئی 2020 میں تخریب کاری اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے تحت پابندی عائد کی تھی۔
قانون نافذ کرنے والے سینئراہلکار اورجہادی تنظیموں سے وابستہ افراد ایس آر اے کے دعوے کوسنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
کراچی میں تعینات ایک انٹیلی جنس افسر کے مطابق ایس آر اے کا ایک ایسے سابق جہادی رہنما کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کرنا اس لیے اہم ہے کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے کے باوجود بیشتر افراد خالد رضا کے جہادی پس منظر کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں حریت کانفرنس کا مرکزی دفتر سیلنام شائع نہ کرنے کی شرط پرانہوں نے بتایاکہ خالد رضاکے قتل کی تحقیقات ہو رہی ہے اور فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا بھارتی خفیہ ایجنسی نے ایس آر اے کو خالد رضا کی معلومات دیں یا ایس آراے ہلاکت کی ذمے داری قبول کر کے تحقیقات کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی اوراسلام آباد میں سابق جہادی رہنماؤں کی ہلاکت ایک ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔
ماجد نظامی کا بھی خیال ہے کہ ایس آراے کی جانب سے خالد رضا کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد اس قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔
ان کے بقول حالیہ ہلاکتوں کے بعد کشمیرکی عسکریت پسندی میں کردار ادا کرنے والے رہنماؤں نے اپنی نقل وحرکت کم کردی ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی ان خبروں اور دعووں کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال چھوٹے بڑے 16 جہادی گروہوں میں حزب المجاہدین، لشکرطیبہ، جیش محمد اورالبدر مجاہدین اہم تنظیمیں ہیں۔ حکومتِ پاکستان گزشتہ بیس سالوں میں حزب المجاہدین کے علاوہ تمام جہادی تنظیموں پرپاپندی عائد کر چکی ہے۔
'جہادی کارکن پاکستانی جہادی تنظیموں کو سرکاری تنظیمیں کہتے ہیں'
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فعال عسکریت پسندی سے وابستہ سابق جہادی رہنماؤں کا کہناہے کہ پلوامہ حملے کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد 32 سال کی مسلح تحریک کے دوران پہلی مرتبہ 2019 میں ریاستِ پاکستان نے کشمیر میں فعال جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکا ہے۔
قاری رشید (فرضی نام) 2018 تک جیش محمد سے وابستہ رہے اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کئی مرتبہ جاچکے ہیں۔ اب وہ گزشتہ چار پانچ سالوں سے کراچی کی ایک مزدوربستی میں چھوٹا سا مدرسہ چلاتے ہیں۔
وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’پاکستانی جہادی تنظیموں کے رہنماؤں نے ریاست کے کہنے پراورملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے خود ہی کشمیر میں سرگرمیاں ترک کردی ہیں جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچا ہے مگر جہادی تنظیموں میں نچلی سطح کے اراکین اسے کمشیر کاز کے ساتھ غداری قرار دے رہے ہیں۔
قاری رشید کے بقول، سرگرم جہادی کارکن پاکستانی جہادی تنظیموں کوطنزیہ سرکاری جہادی تنظیمیں کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " اگست 2020 میں بھارتی حکومت اپنے زیرِانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے لگی توپاکستان میں موجود جہادی تنظیمیں اس پر خاموش رہیں جس کی وجہ سے کشمیری جہادی تنظیموں سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد القاعدہ برصغیر اورداعش جیسی تنظیموں میں شامل ہوگئی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
کشمیر کی عسکریت پسندی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ جولائی 2016 میں بھارتی فوج کے ہاتھوں حرکت المجاہدین سے وابستہ نوجوان عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت نے کشمیری عسکریت پسندی کے خدوخال تبدیل کردیے ہیں۔
قاری رشید کے بقول "برہان وانی کی ہلاکت کے بعد حزب المجاہدین کے بننے والے کمانڈر ذاکرراشد بٹ (ذاکرموسیٰ کے نام سے مشہورتھے)، نے مئی 2017 میں کھلے عام پاکستان کی حامی سمجھے جانے والی تنظیم حریت کانفرنس کے رہنماؤں کوقتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی جہادی تنظیموں نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کوسیاسی تحریک بنادیاہے۔"
ذاکرموسیٰ کی اس دھمکی کے بعد حزب المجاہدین نے انہیں تنظیم سے نکال دیاتھا جس کے بعد انہوں نے 'انصار غزوہ ہند' نامی تنظیم تشکیل دے دی تھی جس کا باقاعدہ الحاق القاعدہ برصغیرسے ہوا۔
مئی 2019 میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جھڑپ میں ذاکر موسی کے مارے جانے کے بعد القاعدہ برصغیر کی جانب سے ہارون عباس نامی نوجوان کو ’انصار غزوہ ہند‘ کا سربراہ بنایاگیا۔
واضح رہے کہ داعش خراساں نے دسمبر 2017 میں کشمیری عسکریت پسندوں کی حمایت کے لیے ایک ویڈیو جاری کی تھی اورکچھ عرصے بعد ’انصار غزوہ ہند‘ سمیت کشمیری تنظیموں کو داعش کے ساتھ الحاق کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔البتہ حزب المجاہدین کے سربراہ صلاح الدین نے اس پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ "کشمیرکی جدوجہدِ آزادی مقامی ہے جس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں اس لیے داعش یا القاعدہ جیسی تنظیموں کے لیے کشمیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔"