خیبرپختونخوا: سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں 9 اہلکار ہلاک

فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے تین مختلف علاقوں میں گزشتہ دو دن کے دوران سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں مجموعی طور پر دو افسران سمیت سیکیورٹی فورسز کے نو اہلکار ہلاک اور دو درجن سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

جھڑپ کا تازہ واقعہ جنوبی شہر ٹانک میں پیش آیا جہاں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے ایک کیمپ پر عسکریت پسندوں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہلاکت خیز حملہ کیا ۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ 'تین دہشت گردوں نے ٹانک کے علاقے میں ایک فوجی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی، اس دوران ہمارے جوانوں نے جوابی کارروائی کی جس میں تین دہشت گرد مارے گئے۔''

آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے اس تبادلے میں چھ اہلکار بھی ہلاک ہوئے جن میں صوبیدار میجر شیر محمد، نائب صوبیدار زبید، حوالدار سہیل، لانس نائیک غلام، سپاہی مسکین علی اور سپاہی میر محمد شامل ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے ایک اور بیان میں بتایا گیا کہ جنوبی وزیرستان میں ہونے والی جھڑپ میں فوج کے ایک کیپٹن سمیت دو اہلکاروں اور چار مبینہ عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ۔

ایک روز قبل بنوں شہر میں عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر ایک پولیس انسپکٹر کو گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا ۔

جنوبی ضلعے ٹانک کے حکام کے مطابق منگل اور بدھ کی رات عسکریت پسندوں کے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کیمپ پر حملے کے بعد دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ بدھ کی صبح تک جاری رہا۔

ضلعی پولیس افسر وقار احمد خان کے دفتر کے ایک اہلکار عبدالمجید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے میں چھ سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 27 زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں فوج کا ایک نائب صوبیدار بھی شامل ہے۔ اس جھڑپ میں تین حملہ آور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ضلعی پولیس افسر نے کہا ہے کہ زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال منتقل کرتے ہوئے اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

حکام نے جھڑپ میں تین حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ادھر وقار احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایف سی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد حالات پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ان کے بقول تینوں حملہ آوروں کے جھڑپ میں ہلاک ہونے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ بند ہونے کے بعد تمام سڑکوں کو آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے جب کہ شہر میں تمام تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بحال ہوگئی ہیں۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نےقبول کی ہے۔

دوسری جانب ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتال میں موجود مقامی صحافی شفیق کنڈی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے حملے میں چھ سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ان کے بقول ہلاک ہونے والوں میں فوج کے ایک نائب صوبیدار سمیت تین اہلکار شامل ہیں۔

ادھر وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ایک جاری بیان میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں گزشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔

ان کے بقول اس طرح کے نیٹ ورک اور سوچ کے خاتمے تک ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نا ممکن ہے۔