فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں وفاقی حکومت نے ایک ماہ کی مہلت طلب کر لی ہے جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت طلب کیے جانے کا بینچ جائزہ لے گا۔
جمعے کو سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے نو مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا دی۔
اٹارنی جنرل نے زیرِ حراست 102 افراد کو اپیل کا حق دینے کے معاملے پر قانون سازی کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگ لی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور عدالت دونوں اس وقت سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ حکومت چاہتی ہے کہ یہ معاملہ نگراں دور حکومت میں آئے جب کہ عدالت چاہتی ہے کہ آئندہ آنے والے چیف جسٹس اس معاملہ کو مکمل کریں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک شامل ہیں۔
سماعت کے دوران کیا ہوا؟
فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھے ہدایت دی تھی اور میں نے نو مئی کے پیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی۔ میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں اور ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 102 افراد کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے بہت احتیاط برتی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نو مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اور ایسے واقعات کی مستقبل میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میاںوالی ایئربیس میں جب حملہ کیا گیا تو اس وقت وہاں جنگی طیارے کھٹرے تھے۔ ہم نو مئی جیسے واقعات کو مستقبل میں روکنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سول جرائم اور سویلنز کی جانب سے کیے گئے جرائم میں فرق ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ 2015 میں زیادہ زور دہشت گرد گروپس پر دیا گیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کے لیے تھیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی دور میں فوجی عدالتوں سے سنائی گئی سزائیں سپریم کورٹ میں چیلنجاس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہو گئے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آ رہے ہیں کبھی جا رہے ہیں۔ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے، آپ کی دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے۔ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کر دیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کورٹ مارشل کا پراسس بھی بتایا اور کہا کہ جس کمانڈنگ آفیسر کی زیرِ نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس کی رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارج کیا جاتا ہے اور الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے، ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرا سکتا ہے۔
عثمان منصور نے کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان آج تک کی سٹیج تک کا ہے۔
انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ نو مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہو گا۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کہ مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس نے بینچ مشاورت کا بتایا اور کہا کہ کیس کی آئندہ تاریخ مشاورت کے بعد اپنے حکم نامہ میں شامل کر دیں گے جس کے بعد فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
عدالت اور حکومت دونوں اس کیس سے بچنا چاہتے ہیں؟
سینئر صحافی اور عدالتی معاملات پر نظر رکھنے والے حسنات ملک کہتے ہیں کہ بظاہر حکومت اور عدالت دونوں اس کیس سے بچنا چاہ رہے ہیں اور اس کو طوالت دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسنات ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے اس معاملے میں ایک ماہ کا وقت مانگا گیا ہے جس سے نظر آتا ہے کہ حکومت اس معاملے سے بچنا چاہتی ہے۔
اُن کے بقول عدالت بھی اس معاملہ سے بچنا چاہتی ہے اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ کا چیف جسٹس ہی اس معاملے کو سنے۔ ممکن ہے کہ وہ اس معاملے پر ایک عبوری حکم نامہ جاری کر دیں۔
حسنات ملک کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس وقت کم ہے اور ان کے چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔
ان کے پاس بہت سے کیسز زیر التوا ہیں جنہیں انہوں نے ختم کرنا ہے۔ الیکشن کا معاملہ، پریکٹس اینڈ پروسیجر، آڈیو لیکس کا ایشو ہے۔
حسنات ملک کے بقول ان سب کیسز کو انہوں نے اپنے رخصت ہونے سے پہلے مکمل کرنا ہے۔ اگر وہ صرف فوجی عدالتوں کا معاملہ سنتے رہے تو یہ سب کیسز سمیٹنا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
اُن کے بقول "عام طور پر چیف جسٹس صاحبان اپنی مدت ملازمت ختم ہونے کے آخری دنوں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے ہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ اس معاملے کو اس انداز سے نمٹایا جائے گا کہ اسے آئندہ کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا۔"
خیال رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال رواں برس 16 ستمبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے جس کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنیں گے۔